” میں نہ مانوں ” کی رٹ

” میں نہ مانوں ” کی رٹ

آخر کار سپہ سالار افواج اور جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی تقرریوں کا اہم قومی مسئلہ بخیر و خوبی سرانجام پا گیا۔

حکومت بھی خوش اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بھی مطمئن ہے۔

خدا کرے کہ پاک افواج بیرونی سرحدوں کے دفاع اور جب حکومت آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو داخلی امن و امان کی خاطر طلب کرے تو وہ اپنا پیشہ وارانہ کردار ادا کرے۔

پڑھیں : کپتان کا بہترین سیاسی ماسٹر اسٹروک

سیاست میں عمل دخل نہ دینے کی پالیسی پر مستقل مزاجی کیساتھ قائم رہے۔

خان صاحب ہوں یا کوئی اور کسی کی خواہش کی تکمیل

یا پسند و ناپسند پر آئین و قانون کو روندنے یا وسیع تر اور

عظیم تر مفاد کی آڑ میں اقتدار پر قبضہ کرنے کی روایت ہمیشہ کے لیے دفن کر دینا چاہیے۔

عمران خان نئی فوجی قیادت سے بھی سات ماہ کے معاملات

لپیٹنے اور عام انتخابات کروانے کی جو امید لیے بیٹھے ہیں

اور اس کا کردار چاہ رہے ہیں وہ کسی بھی طور درست نہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ خان صاحب کی ہدایت پر عملدرآمد نہ کیا

تو پھر نئی قیادت کیخلاف بھی سابق روایت قائم رکھی جائے گی۔

مزید پڑھیں : جنرل باجوہ کا اعتراف مداخلت ؟

جنرل قمر جاوید باجوہ کی اس بات سے اتفاق ممکن نہیں کہ 1971 کا سانحہ سیاسی ناکامی تھی،

کیونکہ اس وقت جنرل یحیٰ خان مقتدر اور کلی اختیار کے مالک تھے۔

سیاستدانوں میں سیاسی جنگ تھی مگر اقتدار کی منتقلی فوجی

حکومت کی ذمہ داری تھی جسے پورا نہیں کیا گیا اور ملک دولخت ہو گیا۔

جنرل باجوہ نے یہ تسلیم کیا کہ فروری 2022 تک اسٹیبلشمنٹ

سیاست میں ملوث رہی اور اس کے بعد الگ ہو گئی البتہ یہ بات

بالکل درست ہے کہ ساری صورتحال اور مسائل کسی ایک فریق کے پیدا کردہ نہیں۔

سیاسی جماعتوں اور سماج سمیت دیگر بھی ذمہ دار ہیں۔

سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں نے چور دروازے سے اقتدار

میں آنے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو قومی و ملکی، آئین و قانون

اور جمہوریت کے منافی تھا اور آج بھی وہی مشق جاری ہے۔ یہ سلسلہ اب ختم ہوجانا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں : بیل منڈھے کیسے چڑھے گی؟

سماج نے سیاسی جماعتوں اور جمہوریت کو ووٹ دیا مگر

جب آمریت آئی تو اسے بھی فراخ دلی اور کشادہ ذہن کیساتھ

قبول کیا جو کبھی بھی صحیح فیصلہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا چاہے کتنا ہی تاویلیں پیش کی جائیں۔

غاصب غاصب اور ظالم ظالم ہی ہوتا ہے۔ وہ بالکل بھی اچھا نہیں ہو سکتا۔

عمران خان نے کہا ہے کہ الیکشن کے بعد بھی ان کی تحریک

جاری رہے گی۔ گویا پی ٹی آئی کامیاب ہو گئی تو ٹھیک ورنہ ” میں نہ مانوں ” کی ہٹ جاری رہے گی۔

مقام فکر اور سوال یہ ہے کہ پھر وہ کون سے عام انتخابات ہیں جو موجودہ بحرانوں کا حل ہیں؟

یہ بھی پڑھیئے : آخرکب تک لکھیں گے؟

افسوس کہ مفلس قوم اور مقروض ملک کے اربوں روپے الیکشن

پر صرف ہو جائیں تب بھی عمران خان صاحب ملک نہیں چلنے دیں گے۔

کیا وہ چاہتے ہیں کہ مارشل لا نافذ کر دیا جائے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔

اگر سیاسی معاملات عدلیہ سے حل کروانے اور قومی فیصلے

فوج سے کروانے ہیں تو پھر سیاسی جماعتوں اور انتخابات کروانے کی کیا ضرورت ہے؟

لمحہ فکریہ ہے کہ سقوط ڈھاکا سے سبق سیکھا گیا نہ دہشتگردی سے درس لیا گیا۔

امریکی فریب سے عبرت حاصل کی گئی نہ اقوام متحدہ کی بے بسی سے تجربہ ہو سکا۔

وطن عزیز کو گردابوں میں پھنسنے سے اثر ہوا نہ ہی عالمی برادری کی بے رخی سے سمجھ آئی۔

پس کرسی کرسی کا کھیل کھیل کر داخلی عدم استحکام کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔

بیرونی قوتوں کو مطلع کر کیا جا رہا ہے کہ وہ چاہیں تو پاکستان کو تر نوالہ جان کر نگل لیں۔

خدارا سیاسی جماعتیں اپنے معاملات باہم مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی راہ اپنائیں۔

فوج، عدلیہ، نیب، الیکشن کمیش کو آئیںن و قانون کے مطابق اپنا اپنا کردار ادا کرنے دیں،

ورنہ بھنور میں کشتی پھنسا کر قوم کو امن، ترقی اور خوشحالی کی نوید سنانا ترک کر دیں۔

قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں،
مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ
جتن نیوز اردو انتظامیہ

” میں نہ مانوں ” کی رٹ ، ” میں نہ مانوں ” کی رٹ ، ” میں نہ مانوں ” کی رٹ ، ” میں نہ مانوں ” کی رٹ ، ” میں نہ مانوں ” کی رٹ

مزید تجزیئے ، فیچرز ، کالمز ، بلاگز،رپورٹس اور تبصرے ( == پڑھیں == )

Imran Rasheed

عمران رشید خان صوبہ خیبر پختونخوا کے سینئر صحافی اور سٹوری رائٹر/تجزیہ کار ہیں۔ کرائمز ، تحقیقاتی رپورٹنگ ، افغان امور اور سماجی مسائل پر کافی عبور رکھتے ہیں ، اس وقت جے ٹی این پی کے اردو کیساتھ بحیثیت بیورو چیف خیبر پختونخوا فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ ادارہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d bloggers like this: