ملک میں آخر کیا ہو رہا ہے؟

ملک میں آخر کیا ہو رہا ہے؟

پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں سنا گیا کہ وزیراعظم ہاوس میں اوپر کی منزل میں جہاں نعیم الحق مرحوم بیٹھا کرتے تھے۔

وہاں کچھ ہوتا ہے۔ وزارت خارجہ کے دفتر میں محترمہ و معززہ تحریم شاہ صاحبہ کا داخلہ اور وزیر خارجہ کی کرسی پر تشریف فرما ہو کر ٹک ٹاک بنانا بھی معمہ بن گیا تھا۔

حکمرانوں کی باہمی گفت گو اور راز کی باتیں بھی منکشف ہوئیں۔ یہ سلسلہ تھما نہیں۔

حال ہی میں وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور مریم نواز کی باہمی گفتگو طشت از بام ہوئی۔

ایک طرف گفتگو ہی ایسی ہے کہ حکمرانوں پر سے اعتبار اٹھ جاتا اور اعتماد کرنے کو دل نہیں چاہتا۔

اپنے لیے اور اپنے خاندانوں کے لیے یہ لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

بھارت سے پینگیں بھی بڑھا سکتے، ذاتی مفادات کے لیے قوم و ملک کو پس پشت ڈال سکتے اور

عوام کے ساتھ ظاہری خلوص و ہمدردی کا ڈرامہ رچا کر انہیں دھوکا و فریب بھی دے سکتے ہیں۔

"ایسے لوگوں سے کیا گلہ کیجے جن کی نیت کا اعتبار نہیں”


حکمرانوں کے نزدیک ان کے رشتے، خاندان، تعلقات، کاروبار اور مفادات زیادہ اہم ہیں۔

قوم و ملک کی کوئی اہمیت و افادیت اور حیثیت نہیں ہے۔

اگر جموں و کشمیر کے عوام پر بھارتی ظلم و جبر کے مقابلے میں مریم نواز کے داماد

کا کاروبار آجائے تو وزیراعظم کے خیال میں غلط ہونے کے باوجود بھی اسے فوقیت دینے کا راستہ کھلا ہوا ہوتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اسحاق ڈار قومی معیشت سنبھالنے آئے ہیں یا مریم نواز کے داماد کا کاروبار چلانے کی خاطر واپس آئے ہیں؟

ابھی پہنچے ہی نہیں تھے کہ مریم نواز کے داماد کے کاروبار کو فروغ دینے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔

قوم کو معاشی مسائل و مشکلات کا سامنا اور اقتصادی بحران سے پالا پڑا ہوا ہے۔

اسحاق ڈار کی واپسی کو معیشت کی بحالی سے جوڑا گیا ہے۔

ابھی وہ پہنچے نہیں تھے کہ ڈالر کے نیچے آنے کی نوید سنادی گئی۔

پڑھیں : رازوں سے پردہ اٹھانے والوں کے مقاصد؟

گو کہ ایک عرصے سے یہی ہو رہا ہے کہ ڈالر کی قدر روپے کے مقابلے میں تیزی سے بڑھتی اور گھٹتی رہتی ہے۔

دوچار دن خوش خبری ملتی ہے تو پھر چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات کے مصداق خبر بد آجاتی ہے۔

معیشت کو عمران خان کی حکومت نے تو ڈبویا تھا مگر شہباز حکومت نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

دیوالیہ ہونے سے اگر بچا لیا تو سانسیں تو اب بھی پھولی ہوئی ہیں۔

عمران خان نے معیشت کو سنبھالا دینے کی آڑ میں سابق حکومتوں

کی مثل قوم کو مزید مقروض کیا اور شہباز حکومت نے بھی آئی ایم ایف سے

قرض لے کر ملک کو مزید قرضوں میں جکڑ دیا لیکن اقتصادیات میں بہتری نہیں آئی۔

خدا جانے اسحاق ڈار کے پاس کون سا کلیہ ہے کہ معیشت اپنے

پاوں پر کھڑی ہو کر خوشحالی کے گیت گانے لگے گی؟

یہ بھی پڑھیں : تیاری کا مطلب، آخر یہ ماجرا کیا ہے؟

اسحاق ڈار شریف خاندان کا کاروبار چلائیں گے یا ملکی معیشت اٹھائیں گے؟

ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ حکمرانوں کی باہمی گفتگو اور ایوان ہائے اقتدار کے راز فاش ہو رہے ہیں

مگر پتہ نہیں لگایا جا رہا کہ آخر کون ہے جو گفتگو ریکارڈ کرلیتا یا حاصل کر کے اسے منظر عام پر لے آتا ہے؟

یہ کام کسی عام شخص کا تو نہیں ہو سکتا۔

کوئی خاص شخص ہی ہے جو گفتگو ریکارڈ کر لیتا یا اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

اس کا مطلب تو یہ بھی ہے کہ پاکستان میں کوئی راز اب راز نہیں رہتا بلکہ ہر راز فاش ہو جاتا ہے۔

مقتدر شخصیات کی گفتگو کا منظر عام پر آ جانا ثابت کر رہا ہے کہ ایوان ہائے اقتدار

کے راز امریکہ، اسرائیل، بھارت اور دیگر ممالک تک پہنچ رہے ہوں گے۔

مزید پڑھیں : بَسْ کہِ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا!

معلوم کرنا چاہیے کہ پہلا قدم کس نے اٹھایا، سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر کس نے ابتدا کی؟

جب، جہاں اور جس سے پتہ چلا وہاں سے ہی تحقیقات کی جائیں

تو پہلا شخص مل جائے گا اور اس سے ساری حقیقت کھل جائے گی۔

اس معاملے میں غیر سنجیدگی اور تاخیر خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں،
مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ
جتن نیوز اردو انتظامیہ

ملک میں آخر کیا ہو رہا ہے؟ ، ملک میں آخر کیا ہو رہا ہے؟ ، ملک میں آخر کیا ہو رہا ہے؟ ، ملک میں آخر کیا ہو رہا ہے؟

مزید تجزیئے ، فیچرز ، کالمز ، بلاگز،رپورٹس اور تبصرے ( == پڑھیں == )

A.R.Haider

شعبہ صحافت سے عرصہ 25 سال سے وابستہ ہیں، متعدد قومی اخبارات سے مسلک رہے ہیں، اور جرنل ٹیلی نیٹ ورک کی اردو سروس جتن نیوز اردو کی ٹیم کے بھی اہم رکن ہیں۔ جتن انتظامیہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d bloggers like this: