معذور افراد تیزی سے فنا پذیری کی جانب گامزن؛ ذمہ دار کون ۔ ۔ ۔؟

معذور افراد تیزی سے

پاکستان کی باہمت بیٹی: ڈاکٹر انم انجم لاکھوں میں نہیں کڑوروں میں ایک ۔۔

ڈاکٹر انم انجم
ہوا یوں کہ کئی سال پہلے جب وہ ایوب میڈیکل کالج میں تھرڈ ایئرکی طالبہ تھیں تو ایک دن اہل خانہ کے ہمرا ہ سفر کے دوران انکو ڈکیتی کا سامنا کرنا پڑا جس میں گولیاں لگنے سے وہ شدید زخمی ہوگئیں جبکہ ریڑھ کی ہڈی میں گولی لگنے سے وہ مستقل معذوربھی ہوگئیں۔

تاہم انہوں نے اس کیفیت کو اپنے عزم و منزل کی راہ میں حاہل نہ ہونے دیا

انہوں نے اس سانحہ کے صرف پانچ ماہ بعد اپنی تعلیم کا سلسلہ ویل چیئر پر

اس حالت میں شروع کردیا کہ گردن سے نیچے جسم مفلوج تھا جبکہ انہوں نے

کوئی سال ضائع کیئے بغیر ایم بی بی ایس مکمل کیا جس کے بعد سائیکاٹری میں

ایم سی پی ایس کرلیا مزکورہ حالت کے باوجود ڈاکٹرانم انجم کی کامیابیوں

اور میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم کے شوق کو دیکھتے ہوئے بیرون ملک بین

الاقوامی یونورسٹی نے ان کو خصوصی وظیفے پر مزید تعلیم حصل کرنیکی

دعوت دی جو پاکستان کی بیٹی کیلئے ایک بڑا اعزاز ہے ڈاکٹر انم انجم کا

کہنا ہے کہ انکی اس کامیابی کے پیچھے انکے گھر والوں اور سب چاہنے

والوں کا بڑا ساتھ ہیانہوں نے انپے پیغام میں کہا ہے کہ

زندگی میں اگر کسی کو ایسا لمحہ پیش آئے کہ رک جانے کے ننانوے بہانے ہوں اور آگے بڑھنے کے صرف ایک وجہ ہو تو اس ایک وجہ کو قدم بنا کر اپنی منزل کی طرف بڑھ جانا چاہیے۔

80 فیصد معذور افراد کی قبل از وقت اموات ، نومولود بچوں میں معذوری کے اسباب کیا؟ جانئے اس فوٹو سلائیڈ شو میں۔،

معذور افراد کا عالمی دن اور وطن عزیز میں خصوصی افراد کا احوال ۔۔۔ ؟

اقوام متحدہ میں معذور افراد کی داد رسی کیلئے سنہ 1992 میں قرارداد منظور کی گئی ،اور اسی سال

معذور افراد کا عالمی دن منانے کا آغاز کیا۔ رواں ماہ تین دسمبر کو

پوری دنیا سمیت وطن عزیز پاکستان میں بھی معذور افراد کا عالمی دن منایا گیا۔

ترقی یافتہ ممالک کا اپنےمعذور افراد کو مایوسی اور معاشرتی

و طبی ناانصافیوں سے بچانے میں کردار نمایاں ہے، تاہم ترقی پذیر ممالک تاحال

ایسے افراد کا درست ڈیٹا تک اکٹھا نہیں کرپارہے،جو لمحہ فکریہ ہے ۔

حالت یہ ہے کہ پاکستان میں خصوصی افراد کے اعدادو شمار کیلئے کوئی مستند ذرائع ہی نہیں،

مگر پھر بھی نادرا کی پھرتیاں دیکھیں کہ 2020 میں نادرا کی جانب سے

سپریم کورٹ کو پیش کی جانیوالی رپورٹ میں ملک بھر میں معذور افراد کی تعداد تین سے چار لاکھ ظاہر کی گئی ،

جبکہ ادارہ شماریات پاکستان (بیورو آف اسٹیٹسٹکس) کے مطابق صرف

جسمانی طور پر معذور افراد کی تعداد 3 کروڑ اور ماؤں کو بنیادی خوراک

نہ ملنے سمیت دیگر وجوہات کے باعث نومولود بچوں اور دیگر مہلک امراض

کی عدم تشخیص یا علاج مہنگا ہونے کی وجہ سے اور حادثاتی واقعات میں

معذور افراد کی تعداد میں کافی حد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔

مغربی ممالک میں تو معذوری کا مذاق اڑانے پر بھی ہزاروں ڈالز اور پاؤنڈز ہرجانہ بھرنے کی مثال موجود ہے ایک معروف کامیڈین نے ہسپتال میں زیر علاج فنکارہ کی معزوری پر لطیفہ کیا کہا کہ بات کینیڈا کے عدالت پہنج گئی اور مقدمہ سپریم کورٹ تک چلا گیا جہاں سے اسے 35 ہزار کنیڈین ڈالر ، 27 ہزار 500 امریکی ڈالر اور 200 ہزار پاؤنڈز ہرجانہ بھد کا فیصلہ سنایا گیا واضح رہے کہ اس قانونی جنگ میں ایک دہائی بیت گئی۔

قصہ ایک معذور اور ارباب اختیار کا۔۔

معذور افراد کے حوالے سے اسائمنٹ پر کام شروع کیا تو اچانک شاہ زیب کا

مسکراتا ہوا چہرہ نظروں میں آیا اگلے ہی لمحے یہ خیال ذہن میں آیا اس مرتبہ وہ

عادتاً نہیں بلکہ مجھ پر ہنس رہا ہے کیونکہ میں لاکھ کوشش کے باوجود اس معذور لڑکے کا علاج نہ کروا سکا

آج تک مجھے میرے آپ سے یہ جواب نہیں مل سکا کہ میں کیوں شرمندگی محسوس کرتا ہوں حالانکہ بات ہوئے بھی کئی سال گزر گئے بس یہ سوچنا ہی تھا کہ آواز آئی تو۔۔۔ کیا ہوا۔۔؟

شازیب یا اس جیسوں کی مدد جاری رکھو ہوسکتا ہے،

ہوسکتا ہے آج کسی کو چارپائی کی قید سے رہائی مل جائے۔

دراصل یہ اس وقت کی بات ہے جب میں ایک قومی روزنامے کا رپورٹر تھا

گزرے ہوئے روز کی طرح یاد ہے، 2016 کی ایک شام کو کسی نے موبائل

پر کال کرکے شازیب کے متعلق بتایا تاہم میرا جب اسکے والدین سے رابطہ ہوا

تو انکا پہلا سوال ہی یہ تھا کہ آپ تو رپورٹ چھاپ دوگے ہمارا مسئلہ کیسے

حل ہو گا بات تو ان کی سچ نکلی، مگر بات تھی رسوائی کی ۔ ۔ ۔

واقعی رپورٹ چھاپنے کی تو کوئی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ اس حوالے سے ارباب اختیار کی اسکی داد رسی کرنا فرض بنتا تھا ، تاہم میں نے ایک اور سٹیپ اتھانے کی ٹھان لی رپورٹ نشر ہوئی تو ۔۔

خبر نہیں روش بندہ پروری کیا ہے۔۔

اس وقت کے خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان مشتاق احمد غنی کو رپورٹ

سینڈ کردی پہلے تو کوئی خاص جواب نہیں ملا۔، غریب گھرانے کی دکھ کا واسطہ

دیا تو انہوں نے ہسپتال کا راستہ دکھایا تو معلوم ہوا یہاں تو اس معذری کا علاج ہی نہیں،

پھر رابطہ کرنے پر اسوقت کے وزیر شہرام تراکئی کا نمبر دیا، انہوں بے اعتناعی برتی۔

ان تک رابطہ کیا تو انہوں نے ایسی بات کہی کہ میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ۔ ۔ ۔

(اسکی تفصیل آپ قارئین مجھ سے کمینٹس میں لے سکتے ہیں)

بعدازاں بوجھل ذہن کیساتھ شازیب کے غربب والد سے رابطہ کر کے معذرت کی

اور کہا کہ محترم انصاف کے نام پر انصاف کو بیچا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔

معذور بچیوں یہاں تک کے معمر معذور خواتین سے بھی زیادتی کے واقعات کہ انسانیت شرما جائے۔۔!

دن منانے کا مقصد معذور افراد کیساتھ اظہار یکجہتی، انہیں احساس

کمتری میں مبتلا ہونے سے بچانا تھا لیکن ہوا کچھ یوں کہ اگلے روز

ہی کسی معذور خاتون یا بچی کیساتھ جنسی زیادتی کی خبر الیکٹرانکس

میڈیا یا اخبار کے فرنٹ پیچ کی زینت بن جاتا ہے، سرسری جائزہ لینے پر

معلوم ہوا کہ کراچی، لاہور، راولپنڈی سمیت ملک کے دیگر حصوں میں ہر

ماہ ایک معذور کا ریپ کیا گیا اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جنسی ہوس

میں غلطاں انسان نما بھڑیوں نے 10 سال کی کمسن بچی سے لیکر 52 سالہ

معمر خاتون تک کو نا چھوڑا، ایسی صورتحال میں یہ دنیا ان معذور افراد کی نظر میں ۔ ۔ ۔ کیا ہے ۔ ۔ ۔؟

اس حوالے سے "جتن مشعل” میں معاشرے کی آنکھ سینئر صحافی قلم کار کیا کہتے ہیں ۔۔؟

دکھی انسانیت کیلئے معاشرے میں یکسانیت پیدا کرنا ہوگی ، ناصر حسین
ناصر حسین

صوبہ خیبر پختونخوا کے صحافیوں کی سپریم تنظیم خیبر یونین آف جرنلسٹ

کے صدرسینئرصحافی ناصر حسین کا "جتن مشعل” میں گفتگو کے دوران

کہنا تھا کہ معذور افراد کو معاشرے میں مقام دے کر ہی کارآمد شہری بنایا جا سکتا

ہے۔ حوصلہ افزائی کی جائے۔ ہنرسکھایا جائے۔ حکومتی اور نجی اداروں میں ملازمت

کے کوٹہ پر سختی سے عملدرآمد کیاجائے۔

حکومت اور معاشرے کی بے حسی، دکھی انسانیت کے حصے میں تسلی نہ دلاسہ،
ایسے افراد کے تعلق دار انکی مشکلات میں کمی لاسکتے ہیں، فدا عدیل
فدا عدیل

سینئر صحافی کالم نگار و اینکر فدا عدیل نے کا یہ کہانا ہے کہ ہم تو ابھی تک یہ طے نہیں کر پائے کہ کسی عضو یا صلاحیت سے محروم افراد کو معذور کہنا ہے یا خصوصی افراد؟ البتہ ہم نے ایسے افراد کی دل جوئی کیلئے انہیں "پرسن ود ڈیفرنٹ ایبلٹی” وغیرہ نام دیئے ہیں ان خصوصی افراد کی زندگی میں جھانک کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ نہ حکومت ان کے لئے کچھ کررہی ہے اور نہ ہی معاشرہ یہ لوگ جتنا زندگی کی گاڑی کا پہیہ کھینچ رہے ہیں خود کھینچ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیمینارز، ورکشاپس اور تقریبات کا انعقاد ہمت داد دینے تک بات درست ہے لیکن اس سے انکی زندگی میں انقلاب نہیں لایا جاسکتا ۔ اور نہ ہی یہ صرف حکومتوں کا کام ٓہے، حکومت خصوصی افراد کے لئے ملازمتوں میں کوٹہ رکھ کر اور ریمپ بنواکر بری الذمہ ہوجاتی ہے، فدا عدیل کا یہ کہنا ہے کہ انکی زندگی میں بہتری معاشرے کے وہ افراد ہی لاسکتے ہیں جو براہ راست ایسے افراد سے تعلق رکھتے ہیں۔

نسانیت کی خدمت کسی خاص دن کیلئے مخصوص نہیں، یہ ہر لمحہ کا کام ہے جو معاشروں میں احساسات کی موجودگی اور اعلیٰ تربیت سے ممکن ہے، ایم آئی علوی
حقیقی حقداروں تک حق پہنچانا سب سے پہلے حکومت کا فرض،
یہاں ہوں کہ نہ ہوں اللہ کے حضور ضرور جواب دہ ہوں گے۔

معذور افراد خصوصی توجہ کے مسحق ہوتے ہیں جن میں ہر طرح کے معذور

شامل ہیں، چاہے وہ پیدائشی ہوں یا حادثاتی، ذہنی ہوں یا جسمانی۔ خصوصی افراد

کی نگہداشت انفرادی طور پر ناممکن حد تک مشکل کام ہے اسی لئے معاشرہ کے

اکبرین اور حکومتوں کی سرپرستی اور نگرانی ضروری ہے، جس کو مستقل،

منظم اور شفاف بنانے کی بہر حال ضرورت ہے تاکہ معاشرہ کے معذور افراد کے

نام پر اکٹھی کی جانیوالی امداد، فنڈز اور دیگر وسائل حقداروں تک پہنچ سکے، کہیں

ایسا ہی نہ ہو کہ یہ امداد اور وسائل محض چند افراد تک ہی پہنچتی رہے اور صرف

اشتہاری میک اپ، فوٹو شوٹ، سیمینار، واک یا کسی تقریب کے نام پر معاشرہ میں موجود معذور افراد محروم رہیں.

معذوروں کا عالمی دن ہو یا دیگر ایام، بس ایک دن تک موقوف نہیں ہونے چاہئیں۔
یہ مسلسل توجہ اور تسلسل کے روادار ہیں، سینئر صحافی مظہر عمران سلمان

سینئر صحافی ایڈیٹر مظہر عمران سلمان جتن مشعل میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں اِس بات کا سخت اہتمام کر رکھا تھا کہ کوئی شخص فقر و فاقہ میں مبتلا نہ ہو۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم جاری کر رکھا تھا کہ ہر مفلوج اور اپاہج فرد کو بیت المال سے ماہانہ وظیفہ دیا جائے۔ ان خلفائے راشدین کا معذور افراد کے ساتھ اس حد تک احسن سلوک ہمیں معذور افراد کے حقوق کی ادائیگی کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ افسوس ہمارے حکمران نابینا اور معذور افراد کے لئے معاشی و معاشرتی سطح پر کوئی واضح پالیسی بنانے سے قاصر ہیں۔ یہاں تو اگر نابینا افراد اپنے حقوق کے حصول کے لئے احتجاج کریں تو اُن پر بھی لاٹھی چارج کی جاتی ہے۔ لہذا ہمیں اپنے روز مرہ معمولات میں معذور افراد کی بھلائی اور معاونت کے لئے کوئی نہ کوئی قدم ضرور اٹھاتے رہنا چاہئے اور انہیں معاشرہ کا عضو معطل سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔

اچھا شہری ہونے کیلئے بنیادی طور پر اچھا انسان بننا ہو گا، سکندر خان

سینئر صحافی کالمسٹ ادیب سکندر خان نے جتن مشعل میں کہا کہ دوسروں کے حقوق اور اپنے فرائض کا خیال رکھنا ہو گا۔

اپنے کردار پر نظر ڈالنا ہو گی کہ ہماری دن بھر کی مصروفیات میں ہم دوسروں کے سکھ اور آرام کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔

یوں جنہیں ہم معذور افراد کہتے ہیں یہ لفظ انہیں احساس کمتری میں مبتلا کرنے اور ان کی تحقیر کرنے کے مترادف ہے۔

ان کے لئے خصوصی افراد کا لفظ استعمال کرنا چاہئیے اور ظاہر ہے ان عام انسانوں کے مقابلے ان میں جو کمی ہوتی ہے

اس کا ذکر کرنے یا انہیں اس کا احساس دلانے سے احتراز کرنا چاہئیے۔ ان سپیشل افراد کے لئے حکومتیں بھی مختلف

سطحوں پر اقدامات کرتی ہیں۔ مٹلا ان کے لئے تعلیم و تربیت کے مختلف اداروں کا قیام کیا جاتا ہے۔ ان کی کونسلنگ کی

جاتی ہے اور مصنوعی اعضا و الات مہیا کئے جاتے ہیں۔ لیکن معاشرے کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے طور پر بھی

ان سپیشل افراد کے لئے بساط بھر کوشش کرے انہیں مفید اور کارامد شہری بنا کر اپنے پاوں پر کھڑا کیا جائے تاکہ اپنے

اور اپنے ملک کے لئے خوشحالی کا باعث بنیں۔

انسانی حقوق، پائیدار ترقی اور امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے
خصوصی افراد کی شمولیت ایک لازمی شرط ہے، نعیم مصطفٰے سید

خصوصی افراد کی ایک ارب آبادی میں سے 80 فیصد ترقی پذیر ممالک میں رہتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق 60 سال یا اس سے زیادہ عمر کے 46 فیصد معمر افراد معذور ہیں

مزید یہ کہ تمام متعلقہ سرکاری محکموں، عالمی اداروں اور سول سوسائٹی کو خصوصی

افراد کی سہولت کے لیے متحد ہو کر کام کرنا چاہیے، محکمانہ تعاون کی بنیاد فیصلہ سازی

کے تمام عملوں میں معذور بچوں کی فعال اور جامع شرکت کو یقینی بنانا ہے تاکہ انہیں نتیجہ خیز شہری بنایا جا سکے۔

خصوصی افراد ہمارے معاشرے کا اہم حصہ،کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، سید اظہر علی شاہ

عالمی صورتحال و دیگر امور کے ماہر صحافی و سینئرتجزیہ کار سید اظہر علی شاہ

المعروف بابا گل کا جتن مشعل میں کہنا تھا کہ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں

ہے کہ جسمانی طور پر متاثر افراد نے زندگی کے مختلف شعبوں میں کمال کی مہارت

دکھا کر اپنا نام کمایا ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خصوصی افراد میں بھی

ٹیلینٹ کی کمی نہیں ہے لیکن انہیں مناسب رہنمائی اور حوصلہ افزائی نہیں ملتی۔

سرکاری اداروں میں خصوصی افراد کے ساتھ پیش آنے والا روئیہ بھی مایوس کن

ہے سرکاری ملازمتوں میں خصوصی افراد کے کوٹے پر غیر مستحق افراد بھرتی

کیئے جاتے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ خصوصی افراد کی حق تلفی بند کی

جائے اور انہیں عزت و احترام میں وہی مقام دیا جائے جو ان کا حق بنتا ہے،

یہ بات بھی طے ہے کہ خصوصی افراد کی عزت و احترام مہذب معاشروں میں ہی

کی جاتی ہے، اگر آپ نے یہ دیکھنا ہے کہ کونسا معاشرہ کتنا مہذب ہے تو وہاں سڑکوں

گلیوں کی صفائی ، ٹریفک قوانین کا احترام اور خصوصی افراد کیساتھ انکا برتاؤ دیکھا جاتا ہے۔

حقائق اور کارکردگی کے دکھاوے الگ اور متضاد کہانیاں رکھتے ہیں..!

انسانیت کسی عالمی دن کی محتاج نہیں، یہی وجہ ہے کہ بلند و بانگ دعوؤں اور شور شرابے کیساتھ منائے جانیوالے

عالمی دن گواہی دیتے ہیں کہ دنیا سے انسانی ہمدردی مفقود ہو چکی ہے، کیونکہ جہاں احساس، پاس، ہمدردی و غمگساری

موجود ہو وہاں کوئی دن منانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، ہاں یہ عالمی دن ان معاشروں کی پیداوار ضرور ہیں جہاں تہذیب

اور تمدن کا کوئی نام و نشان نہیں، جبکہ یہ گمراہ قومیں کبھی ماں، کبھی باپ، کبھی معذور، کبھی جانور، کبھی کسی بیماری

اور کبھی کسی واہیاتی کے نام پر عالمی دن پوری دنیا پر مسلط کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔

انسانوں کی مجبوریاں اور محرومیاں ایک مخصوص طبقہ کیلئے عالمی دن منانے تک محدود ہو گئیں۔

پرفریب نعرے، دعوے اور انسانیت کے نام پر بلند کئے جانیوالے علم سسکتی انسانیت کے ارمانوں پر

تو سایہ فگن ہیں لیکن ان کے دکھوں اور دردوں کے درماں نہیں؛ حقائق اور کارکردگی کے دکھاوے الگ

اور متضاد کہانیاں رکھتے ہیں۔

معذور افراد تیزی سے ، معذور افراد تیزی سے ، معذور افراد تیزی سے ،

معذور افراد تیزی سے ، معذور افراد تیزی سے ، معذور افراد تیزی سے

خصوصی افراد کے حوالے سے مس افشیں کا پوڈ کاسٹ سنئے

قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں، مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ جتن نیوز اردو انتظامیہ

= پڑھیں = دنیا بھر سے مزید تازہ ترین اور اہم خبریں

Imran Rasheed

عمران رشید خان صوبہ خیبر پختونخوا کے سینئر صحافی اور سٹوری رائٹر/تجزیہ کار ہیں۔ کرائمز ، تحقیقاتی رپورٹنگ ، افغان امور اور سماجی مسائل پر کافی عبور رکھتے ہیں ، اس وقت جے ٹی این پی کے اردو کیساتھ بحیثیت بیورو چیف خیبر پختونخوا فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ ادارہ

3 thoughts on “معذور افراد تیزی سے فنا پذیری کی جانب گامزن؛ ذمہ دار کون ۔ ۔ ۔؟

  • 11 دسمبر, 2022 at 5:22 شام
    Permalink

    اللّٰہ تعالیٰ آپ کو مزید ہمت دے ایسے عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے

    Reply
    • 16 دسمبر, 2022 at 4:58 صبح
      Permalink

      جناب مظہر عمران سلمان صاحب ، کاوش پسند کرنے اور اپنے نیک خیالات کا اظہار کرکے حوصلہ افزائی کا بے حد شکریہ ، امید ہے مستقبل میں بھی آپ اپنی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کا سلسلہ جاری رکھیں گے، جتن انتظامیہ

      Reply

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d bloggers like this: