قائد اعظمؒ کا انتقال کیسے ہوا؟ آج بھی کئی سوال جواب طلب ( آخری حصہ )
قائد اعظمؒ کا انتقال کیسے ہوا؟ آج بھی کئی سوال جواب طلب ( آخری حصہ )
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی 75 ویں برسی عقیدت و احترام کیساتھ منائی گئی۔ بانی پاکستان کے مزار پر تقریبات کا آغاز قرآنی خوانی سے ہوا جس میں پاک فضائیہ، پاک بحریہ اور قائد اعظم مینجمنٹ بورڈ کے اراکین شریک ہوئے۔ بعد ازاں وزیراعلی، گورنر سندھ، تینوں مسلح افواج کے نمائندوں اور ڈی جی رینجرز سندھ نے مزار پر حاضری دی۔ ملک کے دیگر شہروں میں بھی قائد اعظمؒ کی برسی کے موقع پر قرآن خوانی کا اہتمام کیا گیا۔ سکول، کالجز میں منعقدہ تقاریب میں قائد اعظمؒ کے کردار پر روشنی ڈالی گئی اور مسلمانوں کیلئے الگ وطن کے حصول کیلئے ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
پڑھیں : قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا انتقال کیسے ہوا؟ آج بھی کئی سوال جواب طلب
برصغیر کے مسلمانوں کو علیحدہ شناخت اور نصب العین دینے والے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ قیامِ پاکستان کے بعد 11 ستمبر 1948ء کو اپنی وفات تک ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے، قائد اعظم کی آخری آرام گاہ کے احاطے میں ہی ایوان نوادرات ہے جہاں بابائے قوم کے زیر استعمال رہنے والا سامان موجود ہے۔ قائد میوزیم کو حاجی محمد حنیف طیب نے 1988ء میں تعمیر کروایا تھا جہاں قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے قلم سے لے کر کار تک ہر چیز محفوظ ہے، قائد اعظمؒ نے آزاد ملک تو حاصل کر لیا لیکن زندگی نے ان سے وفا نہ کی، قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی 11ستمبر 1948ء کو بانی پاکستانؒ انتقال کر گئے۔
قائد اعظم ؒ کا انتقال طبعی تھا یا انہیں موت کے گھاٹ اتارا گیا؟
وقت بہت سی حقیقتوں کو آشکار کرتا ہے۔ جن کو ہم تاریخ کی کتابوں میں شائع کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
مگر حقیقتیں خود ہی وقت کیساتھ سامنے آ جاتی ہیں۔
انجیل مقدس میں کہیں حضرت یسوع کا قول پڑھا تھا گناہ خود ہمیں گنہگار تک لے جاتا ہے۔
چاہے تاریخ کے صفحات پر کتنی دھول ڈالی جائے، سچ سامنے آ جاتا ہے۔
قائد اعظمؒ کی موت سے کئی سوال جڑے ہیں۔
جن کو آج تک کبھی کسی نے اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔
مگر یہ سوال آج بھی زندہ ہیں۔
کیا قائد کا انتقال ہوا؟ یا ان کو مکمل منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا؟
یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب آج تک نہیں دیا گیا۔
1949 میں کرنل الٰہی بخش نے قائد کے آخری ایام کے نام سے کتاب لکھی۔
کرنل الٰہی بخش کی کتاب کا دیباچہ محترمہ فاطمہ جناح ؒ نے تحریر کیا۔
کتاب میں الٰہی بخش نے قائدؒ کے آخری ایام سے جڑے واقعات درج کئے۔
اپنی تصنیف میں قائد کے علاج میں ہوئی کوتاہوں کو آشکار کیا۔
اس میں کئی پردہ نشینوں کے نام بھی آئے۔
احتجاج کے خوف سے لیاقت علی خان نے کتاب پر پابندی لگا دی۔
قائد ؒ کے قتل اور اس سے جڑے لوگوں پر پردہ ڈالنے کیلئے سرکار نے قائد ؒ کی سرکاری سوانح حیات لکھوانے کا فیصلہ کیا۔
اس کام کیلئے انگریز صحافی ہیکٹر بولیتھو کا انتخاب کیا۔
محترمہ فاطمہ جناح ؒ نے ان سے کسی بھی قسم کا تعاون کرنے سے انکار کیا۔
ہیکٹر صاحب صدارتی الیکشن کے ایام میں ایوب خان کے حق میں مضامین لکھتے رہے۔
1954 میں ہیکٹر کی کتاب Jinnah: Creator of Pakistan منظر عام پر آئی۔
1955 میں محترمہ فاطمہ جناح ؒ نے اس کتاب کے جواب میں ’مائی برادر‘ کے نام کتاب لکھی جو شائع تو ہوئی
مگر اس پر ریاست مخالف ہونے کا الزام لگا کر پابندی لگا دی گئی۔
یہ کتاب 32 سال بعد 1987 میں دوبارہ چھپی مگر بہت سا مواد حذف کر دیا گیا۔
قائد ؒ کی وفات کی کہانی 11 ستمبر 1948 کی صبح کو شروع ہوتی ہے جب کراچی سے دو جہاز کوئٹہ آئے۔
قائد کیلئے ان کے خصوصی طیارے وائی کنگ میں دو سیٹوں کو جوڑ کر بستر بنایا گیا۔
جب کرنل الٰہی بخش نے جہاز میں موجود آکسیجن کے سلنڈرز کو دیکھا تو ان میں آکسیجن بہت کم تھی۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کس نے کیا؟،
ایک بیمار آدمی جس کے پھیپھڑے کام کرنا چھوڑ چکے ہوں،
اس کیلئے آکسیجن کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے مگر کراچی سے بھیجے گئے جہاز میں آکسیجن سلنڈر میں آکسیجن کی مقدار بہت کم کیوں رکھی گئی؟۔
کرنل الٰہی بخش کے بقول کوئٹہ کے ڈاکٹرز نے قائد کیلئے آکسیجن سے بھرے سلنڈرز کا انتظام کیا۔
دو بجے قائد کا جہاز کوئٹہ سے کراچی آنے کیلئے محو پرواز ہوا۔
قائد کا جہاز چار بج کر پندرہ منٹ پر ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر اترا۔
قائد کو فوجی ایمبولینس میں منتقل کیا گیا۔
قافلے کی منزل گورنر جنرل ہاوس تھا۔ قافلہ روانہ ہوا۔
قائد کیساتھ ایمبولینس میں محترمہ فاطمہ جناح ؒ اور نرس سسٹر فلس ڈنہم سوار ہوئیں۔
ڈاکٹر الٰہی بخش، ڈاکٹر مشتری اور کرنل نولز کیڈلک کار میں سوار ہوئے۔ ضروری سامان ٹرک پر لاد دیا گیا۔
گورنر جنرل ہاوس ماڑی پور سے 9 میل دور تھا۔
فوجی ایمبولینس نے چار میل کا فاصلہ طے کیا تھا کہ ایمبولینس ایک جھٹکے کیساتھ بند ہو گئی۔
ڈاکٹر الٰہی بخش کے بقول انہوں نے ڈرائیور سے پوچھا تو بتایا گیا انجن خراب ہو گیا ہے۔
یہی بات محترمہ فاطمہ جناح ؒ کو بتائی گئی۔
20 منٹ تک ڈرائیور نے ٹھیک کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔
تنگ آ کر محترمہ فاطمہ جناح ؒ نے کرنل نولز کو دوسری ایمبولنس لینے کیلئے بھیجا۔
ان کیساتھ ڈاکٹر مشتری کو بھی بھیجا گیا۔
یہ قافلہ ایک گھنٹے سے زائد ماڑی پور کے جنگل میں کھڑا رہا۔
دوسری ایمبولینس لانے میں بہت وقت صرف ہوا۔
بقول سردار شوکت حیات اس وقت کراچی کے ملٹری اور نیول ہسپتالوں میں بہترین ایمبولنسز موجود تھیں۔
قائد کو خراب آرمی ایمبولینس کس نے دی؟
جب دوسری ایمبولینس کیلئے بھیجا گیا تو وہ کیوں مل نہ سکی۔
یہاں پر ایک اور بات حیران کن ہے۔
قائد نے 29 اگست کو یہ بات کہی کہ وہ کراچی کے گورنر ہاوس میں ٹھہرنے کی بجائے ملیر میں نواب بہاولپور کی رہائشگاہ پر ٹھہرنا چاہتے تھے۔ پھر ان کو گورنر جنرل ہاوس کون لے کر گیا؟۔
گورنر جنرل ہاوس پہنچ کرقائد کی حالت کا جائزہ لیا گیا۔ وہ گہری نیند میں تھے۔
ملٹری سیکرٹری کرنل نولز کو ایک نرس کا اہتمام کرنے کا کہا گیا۔
ڈاکٹر الٰہی بخش نے کراچی کے دو ڈاکٹروں کو بلانا چاہا۔
کرنل مظہر حسین شاہ اور کرنل سعید احمد اطلاع دینے پر بھی دونوں نہیں آئے۔
سوال ہے یہ دونوں صاحبان اس وقت کہاں تھے؟۔
قائد کیلئے دوسری نرس کا اہتمام نہ ہو سکا۔
حیرت ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں نرسوں کا قحط کیسے پڑ گیا۔
7 بجے شروع کی گئی اس بھاگ دوڑ میں 8 بج کر 20 منٹ ہو گئے۔ قائد کی طبیعت بگڑ رہی تھی۔
اس دوران ان کو دل کی دوا کا انجکشن لگایا گیا مگرقائد نہ سنبھل سکے۔
قائد کے آخری الفاظ کیا تھے؟ یہ بھی معمہ ہے۔
فاطمہ جناح ؒ کے بقول قائد ؒ کے آخری الفاظ تھے، ” فاطی، خدا حافظ، لاالہ الااللّہ محمد الرسول اللّہ“۔
ڈاکٹر الٰہی بخش کے بقول آخری الفاظ تھے، ” نہیں، میں زندہ نہیں رہوں گا“۔
ڈاکٹر ریاض شاہ کے بقول یہ الفاظ تھے، ”اللہ پاکستان“۔
ریاض شاہ کے انکشافات ایوب دور میں سامنے آئے کہ قائدؒ کو بہن کی نہیں وطن کی فکر تھی۔
علالت کے دوران ایک واقعہ عجیب ہوا۔
7 اگست بروز عیدالفطر یہ اعلامیہ جاری ہوا قائدؒ علالت کی وجہ سے یوم آزادی کی تقریب میں شرکت نہیں کریں گے۔
15 اگست کو قائدؒ کے نام سے جعلی پیغام نشر کیا گیا جس سے کئی افواہوں نے سر اٹھایا۔
افسوس یہ راز کبھی نہ کھل سکے کہ قائدؒ کیساتھ کیا ہوا؟،
قائد کے آخری ایام کی کہانی ان کے ملٹری سیکرٹری مظہر احمد نے لکھی ہے جن کا تعلق پاک بحریہ سے تھا۔
مظہر احمد کچھ عرصے بعد ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں اپنی اہلیہ سمیت شہید ہو گئے۔
ایسا ہی ایک حادثہ لیاقت علی خان کے قتل کے تحقیقی کمیشن کیساتھ ہوا۔
حوالہ جات:
قائد اعظم کا آخری سال ۔۔۔۔۔ فرخ امین ،
قائداعظم کے آخری ایام ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر الٰہی بخش
میرا بھائی ۔۔۔۔۔ فاطمہ جناح
حیات قائد کا آخری سال ۔۔۔۔۔ ریاض شاہ
قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں،
مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ
جتن نیوز اردو انتظامیہ
قائد اعظمؒ کا انتقال کیسے ہوا؟ ، قائد اعظمؒ کا انتقال کیسے ہوا؟ ، قائد اعظمؒ کا انتقال کیسے ہوا؟ ، قائد اعظمؒ کا انتقال کیسے ہوا؟
قائد اعظمؒ کا انتقال کیسے ہوا؟ ، قائد اعظمؒ کا انتقال کیسے ہوا؟ ، قائد اعظمؒ کا انتقال کیسے ہوا؟ ، قائد اعظمؒ کا انتقال کیسے ہوا؟
قائد اعظمؒ کا انتقال کیسے ہوا؟ ، قائد اعظمؒ کا انتقال کیسے ہوا؟ ، قائد اعظمؒ کا انتقال کیسے ہوا؟ ، قائد اعظمؒ کا انتقال کیسے ہوا؟
= پڑھیں = پاکستان بھر سے مزید اہم اور تازہ ترین خبریں
مزید تجزیئے ، فیچرز ، کالمز ، بلاگز،رپورٹس اور تبصرے ( == پڑھیں == )