عدالت کا فوکس صرف ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پرہے، سپریم کورٹ
اسلام آباد (جے ٹی این پی کے) فوکس صرف ڈپٹی سپیکر کی رولنگ
سپریم کور ٹ آف پاکستا ن کے چیف جسٹس جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ کیس جلد نمٹانا چاہتے ہیں،
نگران حکومت کا قیام کیس کی وجہ سے رکا ہوا ہے،آئینی شق کو قواعد کے ذریعے روندا نہیں جا سکتا،
ہم فی الحال آئین و قانون کو دیکھ رہے ہیں،عدالت کا فوکس صرف ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر ہے،
تمام فریقین بھی اس نقطے پر ہی فوکس کریں.
جبکہ چیف جسٹس نے 31 مارچ کے قومی اسمبلی کے اجلاس کے منٹس طلب کرتے ہوئے کہاہے کہ اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری اجلاس کے منٹس پیش کریں۔
منگل کوچیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا 5 رکنی لارجر بینچ اس معاملے پر لیے گئے از خود نوٹس اور متعدد فریقین کی درخواستوں پر سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں درخواست گزاروں میں سے ایک خاتون نے روسٹرم پر آکر کہا کہ امریکا میں تعینات رہنے والے سفیر اسد امجید کو بلایا جائے تو سب سامنے آ جائے گا۔
چیف جسٹس نے خواتین درخواست گزاروں کو بات کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو سنیں گے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رضا ربانی نے دلائل کے آغاز میں کہا کہ الیکشن کمیشن کا میڈیا میں بیان آیا ہے کہ 3 ماہ میں انتخابات ممکن نہیں،
کوشش ہے کہ آج دلائل مکمل ہوں اور مختصر فیصلہ آ جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بھی جلدی فیصلہ چاہتے ہیں تاہم تمام فریقین کا مؤقف سن کر دیں گے۔
رضا ربانی نے کہا کہ عدالت کو دیکھنا ہے کہ پارلیمانی کارروائی کو کس حد تک استثنیٰ حاصل ہے،
جو کچھ ہوا اس کو سویلین مارشل لا ہی قرار دیا جاسکتا ہے،
سسٹم نے ازخود ہی اپنا متبادل تیار کرلیا جو غیرآئینی ہے۔
رضا ربانی نے کہا کہ اسپیکر کی رولنگ غیر قانونی تھی،
تحریک عدم اعتماد ووٹنگ کے بغیر ختم نہیں کی جاسکتی،
آرٹیکل 95 کے تحت ووٹنگ کا عمل ضروری تھا۔
نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے منٹس اور خط منگوایا جائے،
عدالت اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دے کر اسمبلی کو بحال کرے۔
رضا ربانی کے بعد مسلم لیگ (ن) کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 95 کی ذیلی شق 1 کے تحت عدم اعتماد قرار داد جمع ہوئی .
جس پر 152 ارکان کے دستخط ہے اور 161 ارکان کی حمایت پر اسپیکر نے عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت دی۔
انہوں نے بتایا کہ عدم اعتماد پر مزید کارروائی 31 مارچ تک ملتوی کردی گئی،
این اے رولز 37 کے تحت 31 مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی لیکن بحث نہیں کرائی گئی
پھر 3 اپریل کو عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کوشش کریں کہ کیس جلدی مکمل کریں تا کہ کوئی فیصلہ دیا جا سکے۔
دلائل جاری رکھتے ہوئے مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت تحریک عدم اعتماد کی قراداد دیکھے ،
تحریک وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے جمع کرائی گئی تھی.
جس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ وزیراعظم اکثریت کھو چکے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 31 مارچ کو التوا کیسے کیا گیا؟
اسپیکر کی جانب سے کوئی ہے؟
ہمیں اجلاس کی کارروائی کے نوٹس دیے جائیں، اسپیکر کا ریکارڈ پیش کیا جائے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ 3 اپریل کو اجلاس شروع ہوا،
تلاوت کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے کسی کو موقع نہیں دیا اور صرف فواد چوہدری کو بولنے کی اجازت دی،
وزیراعظم اکثریت کھو دیں تو یہ پارلیمانی جمہوریت کے خلاف ہے کہ وہ وزیراعظم رہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر کب کیا ہونا ہے یہ رولز میں ہے آئین میں نہیں،
رولز بھی آئین کے تحت ہی بنائے گئے ہیں، ووٹنگ نہ ہونا آئین کی خلاف ورزی کیسے ہوگئی؟
آئین کے مطابق 7 روز میں عدم اعتماد پر ووٹنگ ضروری ہے،
اگر کسی وجہ سے ووٹنگ آٹھویں دن ہو تو کیا غیرآئینی ہوگی؟
مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد جمع ہوجائے تو اسپیکر مسترد نہیں کر سکتا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک جمع کیسے کروانی ہے طریقہ کار کے بارے میں آئین خاموش ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ عدم اعتماد کے طریقہ کار کے بارے میں رولز موجود ہیں،
عدم اعتماد کی تحریک جمع کرانے کی پہلی شرط 20 فیصد اراکین کی حمایت ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر بحث ہوئی؟
جس پر وکیل نے جواب دیا کہ اس تحریک پر بحث نہیں کرائی گئی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران اکثریت پارلیمان میں موجود تھی؟
تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کیلئے 20 فیصد اراکین کی شرط آئین نے عائد کی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئینی شق کو قواعد کے ذریعے روندا نہیں جا سکتا۔
فوکس صرف ڈپٹی سپیکر کی رولنگ