عورت مارچ اور "end 2030”

عورت مارچ اور "end 2030”

مختلف عالمی اداروں نے 2030 تک کے لیے اپنے مختلف اھداف مقرر کر رکھے ہیں جنہیں ” 2030 end” کا نام دیا گیا ہے ،

ان میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے لیے دو اھداف کا تعین کیا ہے جسے حاصل کرنے کے لیے ایک تیسرے ھدف کا انتخاب کیا ہے جو پہلے والے دو اھداف کے حصول میں معاون ثابت ہوتا ہے ،

پہلے دو اھداف میں عورتوں کےحقوق کی آزادی کےنام پر اسقاط حمل کو دنیا بھر میں قانونی شکل دینا ہے ،

اسکامطلب یہ ہوا کہ کسی بھی خاتون سے یہ نہیں پوچھاجاسکے گاکہ بغیر نکاح اوربغیر شادی کےحمل کیسےٹھرا ہے؟

جبکہ انکا دوسرا ھدف ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ دینا ہے ، ان دونوں اھداف کو حاصل کرنے کے لیے سور کی چربی اور گوشت سے بنی پیک خوردنی اشیاء کی مسلم ممالک کی مارکیٹوں تک رسائی ہے ، سور کی چربی اور گوشت کھانے سے اس نجس جانور کا ڈی این اے انسانی ڈی این اے میں شامل ہوکر انسانی سوچ اور مزاج کو سور کے مزاج سے ہم آھنگ کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے جو پہلے والے دو اھداف کے حصول میں مزاحمتی تحریک کو ابھرنے نہیں دیتی ،

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اس ایجنڈے کو اقوام متحدہ کی تائید حاصل ہے ،

پاکستان میں عورت مارچ کےنام سے چلنےوالی تحریک ایمنسٹی انٹرنیشنل کےاس ایجنڈے کو بڑھاوا دینےمیں غیر معمولی تقویت دیتی ہے ،

عورت مارچ کے نام پر ہونیوالے پاور شو میں نہ صرف اسقاط حمل اور ہم جنس پرستی کی برملا

تائید کی جاتی ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کو کھلم کھلا رد کیا جاتا ہے ،

حکومت پاکستان اس تحریک کے خلاف کسی قسم کی کاروآئی کرنے سے گریز کرتی ہے کیونکہ ایسے میں اقوام متحدہ

سمیت عالمی طاقتیں حکومت کی مخالفت کرکے کچھ خود ساختہ پابندیاں بھی عائد کرسکتی ہیں ،
دوسری طرف پینٹاگون اور برطانوی ایم آئی سکس اسلامی کلچر کو سیاحت میں تبدیل کرنیکے منصوبے کو آگے بڑھا رہےہیں

اس منصوبے کے تحت نماز، روزہ ، حج ، ،عمرہ اوردیگر تہواروں سے عقیدت کاعنصر ختم کرکے انہیں علامتی سابنانا ہے،

اس منصوبے کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے اذہان سے دو عقائد کو کم سے کم سطح پر لانا ہے ،

ان عقائد میں جہاد کے عنصر کو غیر ضروری قرار دینا ہے ، عالمی طاقتیں جہاد کو انتہاء پسندی اور دھشتگردی سے تعبیر کرتی ہیں انکے خیال میں اگر مسلمانوں کے اذہان سے جہاد کے عنصر کو ختم کردیا جائے تو دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے ، انکے دوسرے ھدف میں نبی آخرالزمان رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ والیہ وسلم کے ساتھ مسلمانوں کی جذباتی وابستگی اور عقیدت کو ختم کرنا یا اسے کم سے کم سطح پر لانا ہے ، ان دو اھداف کے حصول کے لیے پہلے والے دو اھداف ( اسقاط حمل اور ہم جنس پرستی کا فروغ) معاون ثابت ہوسکتے ہیں ,


اسلامی ثقافت کو نقصان پہنچانے کے مزید اھداف میں نئے عقائد کے ساتھ نئے فرقوں کا قیام ، نئے مذاھب کی تشکیل ،

اورفرقوں کےاندر سے نئے فرقے بنانا ہے جن پر کسی رکاوٹ کےبغیر غیر محسوس انداز میں کام ہورہا ہے ،


اگر ہم اپنے اردگرد سمیت پاکستان کے مختلف مقامات پر رونما ہونے والے واقعات کا سنجیدگی سے جائزہ لیں تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمارے ملک میں یہ سب کچھ غیر محسوس انداز میں تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ،

سوشل میڈیا اگر ان خرافات کو فروغ دینے میں اہم ٹول کا کردار ادا کررہا ہے تو دوسری طرف یہ

سوشل میڈیا ہی ہے جو ہمیں آگاہ کررہا ہے پاکستان میں ہم جنس پرستی سمیت دیگر خرافات کس طرح

تیزی کے ساتھ اہم اور نامور تعلیمی اداروں سمیت پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے ،

ان حالات و واقعات کردیکھ کر یقین ہونےلگتا ہےکہ 2030 تک کچھ بھی کسی کے کنٹرول میں نہیں رہےگا ،

شاگرد اپنے اساتذہ کے کنٹرول میں نہیں رھیں گے اولاد اپنے والدین سے باغی ہوچکے ہونگے اور مسلمان اپنے عقائد اور شعاراللہ سے دور بہت دور ہوچکے ہونگے ،

عورت مارچ اور "end 2030”

مزید تجزیئے ، فیچرز ، کالمز ، بلاگز اور تبصرے ( == پڑھیں == )

Imran Rasheed

عمران رشید خان صوبہ خیبر پختونخوا کے سینئر صحافی اور سٹوری رائٹر/تجزیہ کار ہیں۔ کرائمز ، تحقیقاتی رپورٹنگ ، افغان امور اور سماجی مسائل پر کافی عبور رکھتے ہیں ، اس وقت جے ٹی این پی کے اردو کیساتھ بحیثیت بیورو چیف خیبر پختونخوا فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ ادارہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d bloggers like this: