ظلم کی ٹہنی کبھی پَھلتی نہیں۔۔۔
کالمز بلاگز فیچرز / ظلم کی ٹہنی کبھی پَھلتی نہیں۔۔۔
عمران خان سے ہمدردی کا خمیازہ ، سینئر صحافیوں کی بے رحمانہ گرفتاریاں، برین واش کرنے کی کوششیں اور عدالت کی بروقت کارروائی
پاکستان میں 9مئی کوجلاؤ گھیراؤ، پرتشدد واقعات پر جہاں پارٹی رہنماؤں و کارکنان کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں وہیں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے ہمدردی رکھنے والےسینئر صحا فیو ں اور تجزیہ کاروں کو بھی مبینہ طورپر راستے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی ،
میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹی وی اینکر/ صحافی و یوٹیوبر عمران ریاض خان کے گھر پر پولیس نے چھاپہ مارا تاہم گیارہ مئی کو جب وہ سیالکوٹ سے عمان روانہ ہورہے تھے کہ ایف آئی اے حکام نے عمران ریاض کو آف لوڈ کر کے پولیس کے حوالے کر دیا۔ اسی روز سینئر صحافی/ اینکرٹی وی شو میزبان آفتاب اقبال کو ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا جبکہ جمعہ کی رات سابق بیورو کریٹ سینئر صحافی و تجزیہ کار اوریا مقبول جان کوان کے گھر کی دیوار پھلانگ کرداخل ہوکر حراست میں لے لیا گیا تاہم عدالت میں پیش کئے جانے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پولیس نے انہیں پیش کیا تو صحافیوں کی رہائی ممکن ہوسکی،
انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ دونوں ملکی سینئرتجزیہ کاروں کی گرفتاری کا طریقہ اور بعدازاں ان کیساتھ برتاؤ ایسا تھا کہ جیسے یہ کوئی صحافی نہیں بلکہ کسی کالعدم عسکری تنظیم کے ارکان ہوں ، دوسری طرف مغوی صحافی کی بازیابی تو نہ ہوسکی البتہ
گزشتہ روز 24 مئی کو دفتر سے گھر جاتے ہوئے اسلام آباد میں سیونتھ ایونیو سے پولیس نے سینئر صحافی اینکر پرسن سمیع ابراہیم کو بھی حراست میں لے لیا ہے، ان کے چینل ذرائع کے مطابق ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ ان کو کس کیس میں گرفتار کیا گیا تاہم یہ بتایا جا رہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا ایک فیصلہ موجود ہے جس میں عدالت نے کہا ہوا ہے کہ سمیع ابراہیم کو گرفتار کرنے سے پہلے عدالت سے اجازت لی جائے گی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
عمران ریاض خان تاحال لاپتہ
تقریبا دو ہفتےقبل سوشل میڈیا پرایک مختصر ویڈیو سامنےآئی تھی جسمیں پاکستانی صحافی و سیاسی مبصر عمران ریاض خان
کو پولیس افسران کے ایک گروپ نے سیالکوٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے باہر لے جاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے
سینئر صحافی واینکر آفتاب اقبال سمیت دونوں کو11 مئی بروزجمعرات کو 3 ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا
چیف جسٹس امیر بھٹی کے حکم پر آئی جی پنجاب نے آفتاب اقبال کو پیش کیا، تو نظر بندی کے
احکامات معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کردیا گیا
لیکن صحافی عمران ریاض خان کو عدالت میں نہیں پیش کیا گیا بازیابی کی درخواست کی سماعت کے دوران
جو کوئی بھی ذمہ دار ہوگا وہ نہیں بچے گا،جس کے حکم پر عمران رہاض خان کو اٹھایا گیا وہ بھی نہیں بچے گا،چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
عدالتی کاروائی کے بارے میں مزیڈ جاننے کیلئے ویڈیو ملاحظہ کیجیئے
عمران ریاض خان کو کچھ ہوا تو ذمہ دار پاکستانی حکومت ہوگی، صحافیوں کی عالمی تنظیم کا انتباہ، انسانی عالمی حقوق کی تنظیم نے صحافی کی بازیابی اورپی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن روکنے کا مطالبہ کردیا
صحافیوں کے عالمی تنظیم "رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز” نے پاکستانی صحافی عمران ریاض خان کی گمشدگی پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے انکی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا ہے گزشتہ روز جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کی جمہوری حکومت کو چاہیئے کہ ملک میں آئیں اور قانون کا احترام یقینی بناتے ہوئے واضح کریں کہ عمران ریاض خان کہاں ہے اگر عمران ریاض خان کو کچھ ہوتا ہے تو "آر ایس ایف” اس کا ذمہ پاکستان کی حکومت کو ٹھہرائے گی اسکے علاوہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی عمران ریاض کی بازیابی اور نو مئی کے بعد ملک بھر میں اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کو فوری روکنے پر زور دیا ہے۔
مغوی صحافی کی بازیابی معاملے پر مریم اورنگزیب کا برطانوی میڈیا کو جواب "چئی معنی دارد۔؟



وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب سے برطانوی ٹی وی کے صحافی نے مغوی صحافی عمران ریاض خان کے بارے میں سوال کیا تو مریم اورنگزیب نے کہا کہ وہ افراد کے خلاف کسی بھی غیر قانونی کارروائی کی مذمت کرتی ہیں جبکہ ساتھ ہی عمران ریاض خان کی صحافتی ساکھ پر بھی سوال اٹھاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران ریاض خان سیاسی جماعت کے ترجمان ہیں۔ آپ کو ایک صحافی اور ان لوگوں کے درمیان فرق کرنا چاہئے جو کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوتے ہیں اور تشدد کو ہوا دیتے ہیں۔ برطانوی چینل 4 نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ انہیں ان صحافیوں کے ساتھ نہ ملایا جائے جو رپورٹنگ کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ وزیر اطلاعات کے ایک مغوی کے بارے میں ایسے اظہار خیال کے بعد سوشل میڈیا صارفین یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ایک متاثرہ شخص کے ساتھ حکمران جماعت کی ہمدردی کے بجائے اس پر تنقید کرنے سے کم از کم یہ واضح ہوگیا ہے کہ آزادی اظہار اور مخالف آوازوں کو روکنے کے لئے حکومت کسی حد تک بھی جاسکتی جیسا کہ آئے روز عدالتی حکم کے باوجود صحافیوں کی غیر قانونی گرفتاریاں کیں جارہی ہیں ایک صارف نے ٹویٹ پر کچھ یوں تبصرہ کیا
ارشد شریف کے ساتھ کیا ہوا جسے اس حکومت نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (انہوں نے دھمکیوں کے بارے میں سپریم کورٹ کو خطوط لکھے)
صابر شاکر، معید پیرزادہ اور سمیع ابراہیم جیسے بدنام اور سینئر صحافی موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے درپیش مسلسل دھمکیوں کی وجہ سے نوکری چھوڑ چکے ہیں۔
3- یہ حکومت لوگوں کی آواز وں کو کیوں دبا رہی ہے اور اظہار رائے کو کیوں روک رہی ہے؟
4- وہ اب بھی آئین کی خلاف ورزی کیوں کر رہے ہیں اور انتخابات کیوں نہیں کروا رہے؟ واضح رہے کہ مریم اورنگزیب کی برطانوی میڈیا سے بات چیت پر سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔
ٹویٹ لنک
https://twitter.com/Elon_Sust/status/1660655001687973888?s=20
مغوی صحافی عمران ریاض خان کے اہل خانہ پریشان
عمران ریاض کو عدالت پیش کرنیکے بجائے جیل سے نکال کر نامعلوم نقاب پوش 5 افراد کے حوالے کردیا گیا
مغوی صحافی کے بیوی بچے پریشانی کے عالم میں مسلسل انکی راہ تک رہے ہیں تو انکے والد اور بھائی
تھانوں عدالتوں وسرکاری دفاتر کے چکر لگار ہے ہیں تاکہ انہیں بازیابی ممکن ہو، اہل خانہ نہیں جانتے کہ
کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہونگے ، وقت گزرنے کیساتھ انکی پریشانی میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے
بھائی کو سچ بولنے کی سزا مل رہی ہے، عثمان
عمران ریاض خان کو جولائی 2022 میں اسلام آباد جاتے ہوئے اٹک میں بغاوت کے مقدمے میں گرفتار کرلئے گئے،
رواں سال یکم فروری کودوبارہ سائبر کرائم ونگ نے انہیں رات گئے گرفتار کیا بعد ازاں ضمانت پر رہا ہوئے
11 مئی بروز جمعرات کو گرفتار ہوئے کے بعد غائب کردیا گیا جو تاحال بازیاب نہ ہوسکے یہ باتیں
انکے بھائی عثمان نے غیر ملکی میڈیا سے کہی انکا کہنا تھا کہ بھائی کو سچ بولنے کی سزا دی جارہی ہے۔
یہ نیوز اپڈیٹ کی جارہی ہے
ظلم کی ٹہنی کبھی پَھلتی نہیں۔۔۔