صحافیوں کا تحفظ ۔۔۔ ؟

صحافیوں کا تحفظ ۔۔۔ ؟

پی ٹی آئی ارشد شریف کی شہادت پر ماتم کناں ہے مگر اس نے اپنے دور اقتدار میں یا اس سے پہلے کسی صحافی

پر حملے، زخمی، شہید ہونے یا مقدمات درج ہونے پر نہ صرف یہ کہ آواز نہیں اٹھائی بلکہ صحافیوں کو باغی،غدار

اور بکاو مال قرار دے کر میڈیا ہاوسز کی بندش اور صحافیوں کی زبان بندی کا فریضہ سرانجام دیا۔

اگر ارشد شریف کی سچائی، بے باکی، نڈر پن، دلیری، بہادری، شجاعت، جرات مندی اور حق گوئی پر آواز بلند کی جا

رہی ہے تو پھر اور بھی مرد قلندر و درویش موجود ہیں لیکن وہ پی ٹی آئی کیساتھ کارکن کی طرح نہیں ٹھہرتے اس لیے

وہ صحافی نہیں ” لفافی” ہیں۔

پڑھیں : شدت پسندی، قلم، کتاب، برش اور رنگ

پی ڈی ایم نے بھی صحافیوں کو تحفظ دینے کی خاطر پرزور و موثر آواز بلند نہیں کی،

البتہ صدف نعیم کو شہید گردان کر صحافت کیساتھ ہمدردی و غم گساری کا فرض ادا کیا جا رہا ہے، کیونکہ صدف نعیم عمران خان کے کنٹینر کے نیچے آ کر شہید ہوئی ہے۔

مختلف ادوار میں درجنوں صحافی مقدمات اور عدالتوں کا سامنا کرتے رہے ہیں۔

حوالاتوں اور جیلوں کی ہوا کھاتے رہے ہیں۔ تشدد سے زخمی یا شہید ہوتے رہے ہیں

مگر ان کے ملزمان کا سراغ ملا نہ وہ پکڑے گئے نہ ہی انہیں سزا ملی۔

آمریت ہو یا جمہوریت، دہشت گردی ہو یا ریاستی جبر صحافی تو عدم تحفظ کا ہی شکار رہے ہیں۔

خبر، رپورٹ، اداریہ، کالم، مذاکرہ یا گفتگو میں کسی کے حق میں یا

کسی کیخلاف کوئی بھی نکتہ از خود چلا جاتا ہے۔ جب کسی کے حق

میں بات چلی جاتی ہے تو وہ خوش ہوتا ہے اور جب اسی کیخلاف بات چلی جائے تو وہی شخص مرنے مارنے پر تل جاتا ہے۔

مزید پڑھیں : خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائیگا

معاشرے میں تو عدم برداشت کا مادہ حد سے گزرا ہوا ہے ہی لیکن ریاست بھی پیچھے نہیں۔

وہی صحافی کبھی آنکھ کا تارا تو کبھی قدموں کی خاک بنا لیا جاتا ہے۔

اس کی رائے کی آذادی نہیں بلکہ اپنی پسند و ناپسند کو ترجیح دی جاتی ہے،

اس لیے اسے کبھی سر کا تاج بنا کر تعریف و توصیف کی جاتی اور نوازا جاتا ہے

اور کبھی پاوں کی جوتی گردان کر پیروں تلے روند دیا جاتا ہے۔

جو ریاست اظہار رائے کی آزادی اور صحافیوں کے تحفظ کی بات کرتی،

آئین و قانون کے مطابق حق گوئی و بے باکی کے مواقع فراہم کرنے کے نعرے لگاتی ہے

وہی کلمہ حق بلند کرنے پر باغی، غدار اور قابل سزا قرار دینے میں قطعا تاخیر نہیں کرتی۔

یہ بھی پڑھیں : اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ

صحافی غیر جانبدارانہ کوریج دے اور آزادانہ طور پر اپنی رائے

کا اظہار کرے تو ایک فریق خوش ہو کر واہ واہ کرتا، اس کے عمل کو جہاد سے تعبیر کرتا ہے اور دوسرا قابل سزا گردانتا ہے۔

صحافی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کون کس وقت اس کی خبر، رپورٹ،

تقریر، مذاکرے، گفتگو، ادرایے، کالم اور رائے سے ناراض ہو کر ایف آئی آر درج کرا دے۔

عدالت میں مقدمہ دائر کر دے۔ حوالات اور جیل میں بند کر دے۔

حملہ کر کے زخمی یا شہید کر دے۔ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ میت کو کندھا دینے والے زندگی میں تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔

قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں،
مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ
جتن نیوز اردو انتظامیہ

صحافیوں کا تحفظ ۔۔۔ ؟ ، صحافیوں کا تحفظ ۔۔۔ ؟ ، صحافیوں کا تحفظ ۔۔۔ ؟ ، صحافیوں کا تحفظ ۔۔۔ ؟

مزید تجزیئے ، فیچرز ، کالمز ، بلاگز،رپورٹس اور تبصرے ( == پڑھیں == )

Imran Rasheed

عمران رشید خان صوبہ خیبر پختونخوا کے سینئر صحافی اور سٹوری رائٹر/تجزیہ کار ہیں۔ کرائمز ، تحقیقاتی رپورٹنگ ، افغان امور اور سماجی مسائل پر کافی عبور رکھتے ہیں ، اس وقت جے ٹی این پی کے اردو کیساتھ بحیثیت بیورو چیف خیبر پختونخوا فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ ادارہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d bloggers like this: