صحافت یا پُلِ صراط ؟ ( حصہ اول )

صحافت یا پُلِ صراط ؟
برس ہا برس سے صحرائے صحافت کی خاک چھاننے اور اس سمندر میں غوطے لگانے والے میرے ایسے لوگ اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ہم صحافت کا پورا عِلم رکھتے ہیں نہ ہی اسے پوری طرح عملی جامہ پہنا پا رہے ہیں۔

صحافت صحیفہ سے اور پیغبری پیشہ ہے، اب سب کو معلوم ہے۔ یہ وہ پُلِ صراط ہے جس پر پھونک پھونک کر ہی نہیں چلنا پڑتا ہے،

بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس راستے پر قدم رکھنے سے قبل ہزار بار سوچنا پڑتا ہےہرگز بےجا نہ ہو گا۔

ریاست کا چوتھا ستون یونہی نہیں قرار پایا۔ صحافت آرا، افکارات، خیالات، نظریات اور سوچ کو تبدیل کر دیتی ہے۔

ریاستوں اور حکومتوں کو ہلا دیتی ہے۔ تہذیبوں اور ثقافتوں کو بدل دیتی ہے۔

جھوٹ اور سچ ، صحیح اور غلط میں امتیاز و تفریق کر دیتی ہے۔

پڑھیں : ملک میں آخر کیا ہو رہا ہے؟

سچائی سامنے لے آئے تو مثبت و تعمیری انقلاب برپا ہو جاتا ہے ورنہ جھوٹ کو سچ بنا کر باور کرا دے تو قوموں میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔

دنیا بھر میں یہ تاثر عام ہے کہ عورت مرد کے مقابلے میں ہر لحاظ سے کمزور و ناقص ہے۔

مغربی ممالک میں اس امتیاز و تفریق کو ختم کرنے کی تحریک کامیاب ہو چکی

مگر عورت کو آذادی اور حقوق دینے کے نام پر کھلونا بنا دیا گیا۔

اسے ایسی آزادی دی جو اس نے بھی اختیار کرلی کیونکہ اس میں چکاچوند اور بظاہر عزت و شہرت ہے

لیکن تبدیلی صرف اس قدر آئی ہے کہ اب اس کی فروخت کا طریقہ بدل دیا گیا ہے۔

کبھی کنیز یا طوائف کے طور پر بکتی تھی مگر اب ماڈل اور فنکارہ بنا کر بیچی جاتی ہے۔

پہلے اس کی عزت و آبرو کا سودا کیا جاتا تھا اب اس کے اعضا کی نمائش فروخت ہو رہی ہے،

یہ سب کچھ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی زینت بن رہا ہے کیونکہ میڈیا کو چلانے کیلئے بھی پیسہ چاہیے۔

گو کہ اشتہارات عورت کے بغیر یا عورت کی با وقار شمولیت کیساتھ بھی بنائے اور چلائے جا سکتے ہیں،

مگر معاشرہ بھی ذہنی مریض بنا ہوا اور پروقار و سنجیدہ اشتہارات اس کی توجہ

حاصل کرنے سے محروم رہتے ہیں اسلئے تمام شراکت دار تجارت کے فروغ اور

منافعے کو پیش نظر رکھ کر اشتہارات بناتے اور چلاتے ہیں۔

مزید پڑھیں : استغفر اللہ، استغفر اللہ اور بس استغفر اللہ

پاکستان اور بھارت میں مذہبی لحاظ سے ایسی تہذیب و ثقافت بھی ناقابل قبول ہے جو انسان بالخصوص عورت کو عریاں کرنے کا سبب بنے۔

سماجی اقدار و روایات بھی اجازت نہیں دیتیں۔ قانون بھی منع کرتا ہے،

لیکن اس کے باوجود ایسے اشہارات میڈیا پر بے دریغ نظر آتے ہیں جو بےحیائی، فحاشی اور عریانی کے زمرے میں آتے ہیں۔

متعلقہ سرکاری ادارے بھی چشم پوشی کر کے منظوری دے دیتے ہیں

صرف اسلئے کہ سرکار کو بھی محصولات کی ضرورت ہے۔

یہاں تک تو محض میڈیا کا نہیں تمام شراکت داروں کا معاملہ اور مسئلہ ہے،

البتہ خواتین کے مسائل، ان کے حقوق اور ان پر ہونیوالے ظلم و جبر کیخلاف

آواز اٹھانا میڈیا کا اپنا اختیار ہے، جو روزانہ کی بنیاد پر کہیں بھی دکھائی اور سنائی نہیں دیتا۔

یہ بھی پڑھیں : سنگ جیسی ہوں میں

خصوصی ایام کے مواقع پر مخصوص پروگراموں کی اشاعت و نشریات دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں

یا پھر کسی عورت کیساتھ کوئی واقعہ پیش آ جائے یا ظلم و زیادتی ہو جائے تب خواتین کے مسائل،

حقوق اور ان کیساتھ روا رکھے جانیوالے سلوک، ان سے متعلق ملکی و عالمی قوانین، معاشرتی اقدار و روایات

اور انسان و شہری کی حیثیت سے ان کے دفاع و تحفظ پر خبریں، مباحثے و مذاکرے اور تجزیے شائع و نشر کیے جاتے ہیں،

اور ان میں بھی متاثرہ عورتوں اور لڑکیوں کے حوالے سے سوالات اٹھا کر یہ باور کرایا جاتا ہے کہ

عورت یا لڑکی کیساتھ جو کچھ ہوا اس میں اس کا اپنا قصور ہے اور یوں بلواسطہ طور پر ان لوگوں

کی تائید و حمایت کا سامان مہیا کر دیا جاتا ہے جو زیاتیاں کرتے یا مختلف حیلے بہانوں سے خواتین

اور بچیوں کو ان کے بنیادی حقوق دینے، ان کے مسائل حل کرنے اور انہیں ظلم و جبر سے بچانے

کی خاطر دفاع و تحفظ فراہم کرنے کیخلاف ہیں۔ ایسے عناصر کو شہ ملتی ہے تو یقینی طور پر عورتوں کیخلاف جور و جبر کو فروغ ملتا ہے۔

۔۔۔۔۔ ( ۔۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔۔ ) ۔۔۔۔۔

قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں،
مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ
جتن نیوز اردو انتظامیہ

صحافت یا پُلِ صراط ؟ ، صحافت یا پُلِ صراط ؟ ، صحافت یا پُلِ صراط ؟

مزید تجزیئے ، فیچرز ، کالمز ، بلاگز،رپورٹس اور تبصرے ( == پڑھیں == )

A.R.Haider

شعبہ صحافت سے عرصہ 25 سال سے وابستہ ہیں، متعدد قومی اخبارات سے مسلک رہے ہیں، اور جرنل ٹیلی نیٹ ورک کی اردو سروس جتن نیوز اردو کی ٹیم کے بھی اہم رکن ہیں۔ جتن انتظامیہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d bloggers like this: