صحافت یا پل صراط؟ (= حصہ آخر =)

گذشتہ سے پیوستہ : صحافت یا پل صراط؟ (= حصہ آخر =)

خواتین کیساتھ ظلم و زیادتی ہو جائے تو میڈیا کی ملزمان کو بےنقاب کرنے اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کوشش سے زیادہ ایسی خبروں، رپورٹوں اور وڈیوز پر توجہ ہوتی ہے جن کے نتیجے میں سنسنی اور ہنگامہ خیزی پیدا ہو۔

عوام کو مسالے دار، چٹ پٹی اور چٹخارے دار خبریں ملیں تاکہ میڈیا ہاوسز، اخبارات، رسائل، ٹی وی چینلز، متعلقہ صحافیوں، میزبانوں اور تجزیہ کاروں کی واہ واہ ہو اور تجارتی مقاصد کی تکمیل کر کے پیسہ کھینچ سکے۔

پڑھیں : صحافت یا پُلِ صراط ؟ ( حصہ اول )

کوئی متاثرہ عورت یا لڑکی مظلومیت کیساتھ تماشا بھی بنا دی جاتی ہے جو ہونیوالے ظلم پر مزید ظلم کے مترادف ہے۔

عورت یا لڑکی ظالموں کے ہاتھوں ایک بار شکار بنتی ہے مگر میڈیا کے ہاتھوں بار بار شکار بنائی جاتی ہے۔

لہٰذا کسی بھی متاثرہ لڑکی یا عورت کے بارے میں رپورٹنگ یا تجزیہ کرتے وقت ایسی زبان،

ایسے الفاظ، خیالات اور جذبات کے اظہار سے گریز کرنا چاہیے جو اسے انصاف دلوانے کے بجائے الٹا کٹہرے میں لا کھڑا کریں۔

مزید پڑھیں : شطرنج اور تماشائی ! (حصہ آخر)

میڈیا کا فوکس سیاست اور حکومت کے توڑ جوڑ پر ہوتا ہے۔

خبریں سرویز،اداریے، کالم، رپورٹیں، تجزیے اور مذاکرے سیاست کے اردگرد ہی گھومتے ہیں۔

سماج، تعلیم، صحت، معیشت، تجارت، زراعت، سائنس، ٹیکنالوجی، علم،

ادب، تحقیق، تہذیب، ثقافت، تاریخ، قانون، عدل و انصاف،بنیادی انسانی حقوق

اور عام آدمی کی زندگی کو بہت ہی کم زیربحث لایا جا سکتا ہے۔

معاشرے اور عوام کی اپنی ترجیحات ہو سکتی ہیں مگر بازار میں اشیا بیچنے

کیلئے ان کی دلچسپی کا سامان دکاندار ہی طے کرتا ہے،

لہذا میڈیا چاہے تو مثبت و تعمیری فکر و سوچ فروخت کرنے کی خاطر عوامی دلچسپی کا مواد فراہم کر سکتا ہے۔

ضرور پڑھیں : مجھ سے کچھ کہا آپ نے ۔ ۔ ۔؟

چٹ پٹی خبروں، چٹخارے دار رپورٹوں اور مسالے دار تجزیوں کے بجائے

حقیقت پر مبنی مصنوعات فروخت کر کے خوب نفع کما سکتا ہے۔

صورتحال یہ ہے خواتین کو سرکاری و غیر سرکاری شعبہ جات میں

نمائندگی مل بھی رہی ہے تو خوف و ہراس کی فضا قائم ہے۔

مذہبی جماعتیں پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی کی مخالف مگر خود کو

کنزرویٹو اور لبرل کہنے اور کہلوانے والی جماعتیں بھی خواتین کو انتخابی

ٹکٹیں نہیں دیتیں اور خصوصی نشستوں کے ذریعے اسمبلیوں میں لایا جاتا ہے جن کی حیثیت کٹھ پتلیوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔

یہ بھی پڑھیں : جھوٹی سازش، سچی سازش

ووٹ کا حق دینا ہو تو بعض علاقوں میں سماجی اقدار و روایات اور مذہب

کے نام پر جہاں مذہبی تنظیمیں آڑے آتی ہیں وہاں روشن خیال اور اعتدال پسند

جماعتوں کے امیدوار بھی معاہدے کر کے خواتین ووٹروں کیخلاف فیصلوں کا

حصہ بن جاتے ہیں۔ ملکی آئین اور قوانین خواتین کو مردوں کے برابر شہری حقوق

دیتے ہیں لیکن عملی طور پر غصب کر لیے جاتے ہیں۔ میڈیا آواز اٹھا سکتا اور امتیازی

سلوک ختم کرانے میں اپنا کردار بھرپور طور پر ادا کر سکتا ہے جو کرنا بھی چاہیے۔

قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں،
مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ
جتن نیوز اردو انتظامیہ

صحافت یا پل صراط؟ (= حصہ آخر =) ، صحافت یا پل صراط؟ (= حصہ آخر =) صحافت یا پل صراط؟ (= حصہ آخر =)

مزید تجزیئے ، فیچرز ، کالمز ، بلاگز،رپورٹس اور تبصرے ( == پڑھیں == )

Imran Rasheed

عمران رشید خان صوبہ خیبر پختونخوا کے سینئر صحافی اور سٹوری رائٹر/تجزیہ کار ہیں۔ کرائمز ، تحقیقاتی رپورٹنگ ، افغان امور اور سماجی مسائل پر کافی عبور رکھتے ہیں ، اس وقت جے ٹی این پی کے اردو کیساتھ بحیثیت بیورو چیف خیبر پختونخوا فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ ادارہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d bloggers like this: