شطرنج اور تماشائی ! (حصہ آخر)
گذشتہ سے پیوستہ : ۔۔۔۔۔ شطرنج اور تماشائی ! (حصہ آخر)
ایک لطیفہ یاد آرہا ہے، سن لیجئے! کسی محلے میں ایک صاحب انتقال کر گئے، کفن دفن کے بعد رات گئے لوگ گھروں کو چلے گئے،
مولوی صاحب نے میت والا تابوت مسجد کے ایک کونے میں ر کھ دیا،
جاڑے کے دن تھے، رات کو ایک مزدور ٹھٹھرتا ہوا مسجد کے قریب سے گزرا،
موصوف کا گھر خاصا دْور تھا، سوچا کیوں نہ رات مسجد میں ہی بسر کر لے،
چنانچہ مسجد میں پڑے اسی تابوت میں اس کو اپنی عافیت نظر آئی تو اسی میں لیٹ کر سو گیا،
علی الصبح فجر کی اذان ہوئی، نمازی مسجد میں آئے اذان کے بعد امام مسجد نے نماز قائم کی،
اسی دوران اس مزدور کی بھی آنکھ کھل گئی، چنانچہ اس نے ہلنا جلنا شروع کر دیا،
ایک نمازی کی نظر تابوت پر پڑی اسے ہلتے دیکھ کر اس کی چیخ نکل گئی، مزدور چیخ سن کر تابوت سے باہر نکل آیا۔
امام مسجد اور نمازیوں کی نماز وہیں رہ گئی، ڈر اور خوف کے مارے اس قدر بھاگے کہ ایک دوسرے پر جا گرے اور کئی نمازی زخمی ہو گئے۔
کئی پوری برق رفتاری سے بھاگ کھڑے ہوئے۔
وہ مزدور جو تابوت سے نکل کر ان بھاگنے والے نمازیوں کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھا زور زور سے چلانے لگا۔
” مینوں تے دسو ‘ آخر ہویا کی اے "۔
پڑھیں : شطرنج اور تماشائی ! (حصہ اول)
اس شطرنج کے مہرے بھی خوفزدہ عوام کے پیچھے بھاگتے ہوئے ان سے پوچھ رہے ہیں "سانوں تے دسو کمبختو! آخر ہویا کی اے”
شطرنج کا کھیل تو خیر جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا
مگر پوری کی پوری بساط کب لپیٹی جائے گی یہ وقت ہی بتائے گا حالات انتہائی خراب ہو چکے ہیں،
مبینہ طور پر سننے میں آیا ہے کہ جرائم حد سے تجاوز کر چکے ہیں،
ایک منظم گروہ بچوں کو اغواء کرنے کی وارداتوں کا ایک تسلسل کے ساتھ ارتکاب کر رہا ہے،
مگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں سمیت تمام انتظامی حکام لمبی تان کر سو رہے ہیں،
ڈکیتی، چوری اور رہزنی کی وارداتیں بڑھتی جا رہی ہیں،
پٹرول کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود مسافر گاڑیوں کے کرایوں میں کمی آئی نہ ہی اشیاء خورونوش کے نرخ گرے ہیں۔
مزید پڑھیں : شطرنج اور تماشائی ! (حصہ دوم)
ہر جگہ من مانیاں ہو رہی ہیں، دکاندار اشیاء ضروریہ کے من مانے نرخ لے رہے ہیں،
خوفزدہ منظر ہے کرپشن کا جن ماضی میں بھی بوتل سے باہر تھا اور اب بھی آپے سے باہر ہے،
حقدار سڑکوں کی خاک چھانتے پھر رہے ہیں،
ان کا حق مار کر پیسے اور سفارش کے بلبوتے من پسند منصب اور ملازمتیں حاصل کرنیوالے مزے لوٹ رہے ہیں۔
شطرنج کا کھیل جاری ہے، مہرے تو پُل کا کردار ادا کر رہے ہیں
نظام وانصرام تو اس کھیل کے کھلاڑیوں کے ہاتھوں میں ہے، یہ مہر ے بھلا نظام کا کیا بگاڑ سکتے ہیں وہ تو خود سسٹم کا حصہ ہیں،
تماشائی بپھرے ہوئے ہیں کیونکہ پورا نظام ہی قابل اصلاح ہے،
انصاف کی عدم فراہمی ہے، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہر طرف جنگل کا قانون ہو،
اور یہ آج نہیں کئی سالوں سے چلتا نظر آرہا ہے،
جس دن یہ تماشائی اس بساط اور بساط چلانے والوں پر ٹوٹ پڑے ناں تو پھر کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔
شطرنج کے اس خوفناک کھیل سے متاثر ہونیوالے کروڑوں عوام اسقدر دل برداشتہ ہو چکے ہیں
کہ سب کے لبوں پر اب تو فقط یہی سنائی دیتا ہے کہ
کوئی بجھتا ہوا منظر نہیں دیکھا جاتا ۔۔۔۔ اب کسی آنکھ کو پتھر نہیں دیکھا جاتا
ہم نے فقیر بابے کے کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، میاں! دلبرداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں،
ہمارا وطن عزیز پاکستان لاالہ کی بنیاد پر قائم ہوا ہے، یہاں لاکھ برے لوگ سہی،
مگر اچھے اور نیک لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں،انشاء اللہ قوم جلد مثبت تبدیلی دیکھے گی۔
قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں،
مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ
جتن نیوز اردو انتظامیہ
شطرنج اور تماشائی ! (حصہ آخر) , شطرنج اور تماشائی ! (حصہ آخر) , شطرنج اور تماشائی ! (حصہ آخر)
مزید تجزیئے ، فیچرز ، کالمز ، بلاگز،رپورٹس اور تبصرے ( == پڑھیں == )