سورۃ الکوثر کی پہلی تفسیر امام حسن مجتبیٰؑ،حیات مبارکہ،المناک شہادت و تدفین

ہدیہ عقیدت جتن نیوز اردو: سورۃ الکوثر کی پہلی تفسیر

28 صفر المظفر 50 ہجری تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جب نواسہ رسولؐ خلیفۃ المسلمین حضرت امام حسن ؑدرجہ شہادت پر فائز ہوئے۔

حضرت شاہ ولی اللہ کے فرزند نامور عالم اہلسنت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رقم طراز ہیں امام حسن ؑ کی شہادت کا سبب آپ ؑ کی بیوی جعدہ بنت اشعث کی جانب سے دیا جانیوالا زہر تھا۔

جسے پانچ لاکھ درہم دینے اوراس کا نکاح یزید بن معاویہ سے کرانے کا لالچ دیا گیا تھا۔ (سر الشہادتین )

ہم آج کے دن کی مناسبت سے اپنے قارئین کی خدمت میں اپنے مسموم امام کے مختصر حالات زندگی پیش کرتے ہیں:

یوم پیدائش ؑ 15رمضان 3 ہجری

امام حسن ؑ 15رمضان 3 ہجری کی شب مدینہ منورہ میں سورہ کوثر کی پہلی تفسیربن کر صحن علی المرتضیٰ و خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا ؑ میں تشریف لائے۔

رسولِ خداؐ کیلئے امام حسن ؑ کی آمد بہت بڑی خوشی تھی، کیونکہ جب مکہ مکرمہ میں رسول کریم ؐ کے بیٹے یکے بعد دیگرے رحلت فرماتے رہے تو مشرکین طعنے دیتے اور آپ کو بڑا صدمہ پہنچتا۔

مشرکین کوجواب کیلئے قرآن مجید میں سورۃ الکوثر نازل ہوئی،

جس میں آپ کو خوش خبری دی گئی کہ خدا نے آپ کو کثرتِ اولاد عطا فرمائی ہے،

اور مقطوع النسل آپؐ نہیں ہونگے بلکہ آپؐ کا دشمن ہو گا۔

دنیا میں ہر انسان کی نسل اس کے بیٹے سے ہے،

لیکن کائنات کی اشرف ترین ہستی سرور کونین حضرت محمد مصطفیؐ کی نسل کا ذریعہ ان کی بیٹی حضرت فاطمہ زہراؑ یعنی امام حسن و حسینؑ کو قرار دیا گیا۔

حضرت عمرابن خطاب ، حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ؓ کی روایت

۔حضرت عمرابن خطاب ؓ اور حضرت جابر ابن عبد اللہ انصاریؓ روایت کرتے

ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا ’’ہر عورت کی اولاد کا نسب اس کے باپ کی طرف

ہوتا ہے سوائے اولاد فاطمہؑ کے، میں ہی ان کا نسب اور میں ہی ان کا باپ ہوں‘‘

حضرت عمر ؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ قیامت کے دن

ہرنسب منقطع ہو جائیگا سوائے میرے نسب (اولاد فاطمہؑ ) اور رشتہ کے

(حاکم المستدرک، طبرانی المعجم الکبیر، احمد بن حنبل فضائل الصحابہ، شوکانی)۔

نصاری نجران کیساتھ مباہلہ کیلئے بھی رسول خدا امام حسن و حسینؑ کو اپنے

فرزندان کے طور پر ساتھ لے کر گئے جس پر قرآن کی آیت گواہ ہے۔

رسول اللہ ؐکا لعاب دہن آپ ؑ کی پہلی غذا

بحارالانور میں ہے جب امام حسنؑ سرور کائنات کی خدمت میں لائے گئے تو آنحضرت نے انہیں آغوش میں لے کر پیار کیا اور اپنی زبان ان کے منہ میں دیدی،

امام حسنؑ اسے چوسنے لگے اس کے بعد آپ نے دعا کی خدایا اس کو اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا۔

اس کے بعد آنحضرت ؐ نے حضرت علیؑ سے پوچھا، آپ نے اس بچے کا کوئی نام بھی رکھا ؟،

امیرالمومنین ؑنے عرض کی، آپؐ پر سبقت میں کیسے کر سکتا تھا۔

پیغمبر ؐ نے فرمایا میں بھی خدا پر کیسے سبقت کر سکتا ہوں،

چند ہی لمحوں کے بعد جبرائیل ؑ پیغمبر ؐ کی خدمت میں وحی لیکر آئے اور کہا ’’ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے اس بچے کا نام حسنؑ رکھیئے۔

تاریخ خمیس میں یہ مسئلہ تفصیلاً مذکور ہے۔

ماہرین علم الانساب بیان کرتے ہیں خداوند عالم نے خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراؑ کے دونوں شہزادوں کا نام انظارعالم سے پوشیدہ رکھا تھا، یعنی ان سے پہلے حسن و حسین نام سے کوئی موسوم نہ ہوا تھا۔

حضرت انسؑ سے روایت ہے نبی کریم ؐ کیساتھ امام حسن ؑسے زیادہ

مشابہت رکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ حضرت امام حسنؑ رسول کریمؐ سے

چہرے سے سینے تک اور امام حسین ؑ سینے سے قدموں تک رسول ؐکی شبیہہ تھے۔

احوال پرورش و تربیت امام حسنؑ

امام حسن مجتبیٰؑ نے سات سال اور کچھ مہینے تک اپنے نانا رسول خداؐ کا زمانہ دیکھا اور انکی آغوش محبت میں پرورش پائی۔

پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد جو حضرت فاطمہ زہراؑ کی شہادت سے تین سے چھ مہینے پہلے ہوئی آپؑ اپنے والد ماجد کے زیر تربیت آ گئے۔

حضرت امام حسن علیہ السلام کا دورہ امامت

شیعہ مذہب کے عقیدہ کے مطابق ہر امام پیدائش سے ہی امام ہوتا ہے، لیکن وہ اپنے سے پہلے والے امام کی وفات کے بعد ہی عہدہٴ امامت پر فائز ہوتا ہے۔

حضرت امام حسن ؑ بھی اپنے والد بزرگوار حضرت امام علی ؑکی شہادت کے بعد عہدہٴ امامت پر فائز ہوئے،

اس وقت امام حسن ؑکی حیات مبارکہ 37 سال چھ یوم کی تھی۔

حضرت علی کی تکفین و تدفین کے بعد عبداللہ ابن عباس کی

تحریک سے قیس ابن سعد بن عبادہ انصاری نے امام حسن ؑ کی بیعت کی

اور ان کے بعد تمام حاضرین نے بیعت کرلی جن کی تعداد چالیس ہزارتھی ( ابن اثیر)

ابن عباس ؓنے کھڑے ہوکر تقریر کی اور لوگوں کو بیعت کی دعوت دی،

سب نے انتہائی خوشی اور رضا مندی کیساتھ بیعت کی،

آپؑ نے مستقبل کے حالات کا صحیح اندازہ کرتے ہوئے اسی وقت لوگوں پر صاف صاف یہ شرط رکھ دی،

’’اگر میں صلح کروں تو تم کو صلح کرنا ہو گی او راگر میں جنگ کروں تو تمہیں

میرے ساتھ مل کر جنگ کرنا ہو گی‘‘ سب نے شرط قبول کرلی۔

آپؑ نے انتظامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لیا۔ فرزند رسول امام حسن مجتبیٰ ؑ

تقریباً چھ ماہ تک امور مملکت کا نظم ونسق سنبھالا،

آپ کا عہد بھی خلفائے راشدین میں شمار کیا جاتا ہے۔

بوقت خلافت چاروں اطراف بدامنی و سازشوں کا جال

جب آپ نے اس مقدس منصب پر فائز ہوئے تو چاروں طرف بدامنی پھیلی ہوئی تھی،

اور اس کی وجہ آپ کے والد کی اچانک شہادت تھی اور یہ تمام حالات معاویہ کی شیطانی سازشوں کا نتیجہ تھے۔

امام حسن ؑ کے ساتھیوں نے آپ ؑکیساتھ غداری کی،

انہوں نے مال ودولت، عیش و آرام اور عہدہ کے لالچ میں معاویہ سے سازباز کر لی،

جب آپؑ نے دیکھا کہ اسلامی معاشرہ انتشار کا شکار ہے تو آپ نے تخت حکومت کو خیر باد کہہ دیا،

امام حسن ؑؑ کا واحد مقصد حکم خدا و رسولؐ کی پابندی کا اجراء تھا،

امام حسن ؑ نے دین خدا کی سربلندی ،فتنہ وفساد کا سر کچلنے،

کتاب خدا اور سنت رسول پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے اپنے نانا رسول خدا ؐ

کی صلح حدیبیہ کی تاسی میں تخت حکومت کو ٹھوکر مار کر جو تاریخی صلح کی

وہ اسلام کی تاریخ کا ایسا ناقابل فراموش باب ہے جس کی نظیر نہیں ملتی ۔

معاویہ کیساتھ صلح کی شرائط

(1) معاویہ کو اس شرط پر حکومت منتقل کی جاتی ہے کہ وہ کتاب الله، پیغمبر

اسلام ؐاور آپؐ کے حقیقی جانشینوں کی سیرت کے مطابق کام کریگا،

(2) معاویہ کے بعد حکومت امام حسن ؑکی طرف منتقل ہو گی، امام حسن ؑ کی

عدم موجودگی میں حکومت امام حسین ؑکو سونپی جائیگی،

(3) نماز جمعہ کے خطبے میں امام علی ؑپر ہونیوالا سب وشتم ختم، آپ ؑکو ہمیشہ اچھائی کیساتھ یاد کیا جائے۔

(4) کوفہ کے بیت المال میں جو مال موجود ہے اس پر معاویہ کا کوئی حق نہ ہو گا،

معاویہ ہر سال بیس لاکھ درہم امام حسن ؑ کو بھیجے گا،

حکومت کی طرف سے ملنے والے مال میں بنی ہاشم کو بنی اُمیہ پر ترجیح دیگا،

جنگ جمل و صفین میں حضرت علی ؑکی فوج میں حصہ لینے والے سپاہیوں کے بچوں کے درمیان دس لاکھ درہم تقسیم کئے جائیں۔

(5) الله کی زمین پر رہنے والے تمام انسانوں کو امان ملنی چاہئے، چاہے وہ شام کے ہوں یا یمن کے، حجاز کے یا عراق کے، کالے ہوں یا گورے۔

معاویہ کو چاہئے کہ وہ کسی بھی شخص کو اس کے ماضی کے برتاؤ کی وجہ سے کوئی سزا نہ دے،

اہل عراق کے ساتھ دشمنوں والا رویہ اختیار نہ کرے،

حضرت علی ؑکے تمام ساتھیوں کی مکمل طور پر حفاظت کی جائے،

امام حسن، امام حسین ؑاور پیغمبر اسلام کے خانوادے سے متعلق کسی

بھی شخص کی کھلے عام یا پوشیدہ طور پر برائی نہ کی جائے۔

معاویہ کا صلح کی تمام شرائط پر عمل نہ کرنا

معاویہ نے حکومت کے حصول کیلئے ان شرائط کو قبول کر لیا،

لیکن حکومت کے ہاتھ میں آتے ہی وہ ان تمام شرائط پر عمل کرنے سے مکر گیا،

اور ساری عمر ان شرائط میں سے کسی ایک شرط پر بھی عمل نہ کیا۔

حضرت امام حسن ؑکے اس صلح نامہ نے معاویہ کے چہرے پر پڑے نقاب کو الٹ دیا،

اور لوگوں کو اس کے اصلی چہرے سے آشنا کرایا۔

شہادت امام حسن مجتبیٰ

حضرت امام حسن ؑکی شہادت 50 ہجری میں ماہ صفر کی 7 تاریخ کو مدینہ میں ہوئی۔

معاویہ کی سازش کے تحت آپ کی جعدہ بنت اشعت نامی زوجہ نے آپؑ کو زہر دیا تھا

اور یہی زہر آپ کی شہادت کا سبب بنا۔

تدفین کے وقت پیش آنیوالا المناک واقعہ

طبقات ابن سعد میں مرقوم ہے کہ امام حسن ؑنے وصیت کی تھی کہ مجھے میرے نانا کے پہلو میں دفن کرنا۔

ابوالفرج اصفہانی کی کتاب مقاتل الطالبین اور دیگر تاریخی کتابوں میں مذکور ہے

جب امام حسن ؑکو دفن کرنے کے لئے پیغمبر اسلامؐ کے روضہ کی طرف لے جایا گیا تو

امام حسنؐ کی رسول خداؐ کے پہلو میں تدفین کو روکنے کیلئے سوار ہو کر آ گئیں،

ساتھ ہی مروان بھی بنی اُمیہ اور دیگر نام نہاد مسلمانوں کے ہمراہ امی کی مدد و حمایت

کیلئے آ پہنچا اور پھر اور مروان کی قیادت میں امام حسنؑ کے جنازے پہ تیروں

کی بارش کی گئی جس سے دسیوں تیر امام حسنؑ کے جنازے میں پیوست ہو گئے۔

روضہ رسولؑ کے بجائے جنت البقع میں تدفین

اس صورتحال کی وجہ سے مجبور ہو کر امام حسن ؑکے جنازہ کو

جنت البقیع میں والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ زہرہ کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں، اشعث نے امیرالمومنین

علی بن ابی طالبؑ کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کیے،

اس کی بیٹی جعدہ بنت اشعث نے امام حسنؑ کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کیے

اور اس کے بیٹے محمد بن اشعث نے امام حسینؑ کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کیے۔

قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں،
مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ
جتن نیوز اردو انتظامیہ

سورۃ الکوثر کی پہلی تفسیر ، سورۃ الکوثر کی پہلی تفسیر ، سورۃ الکوثر کی پہلی تفسیر ،

سورۃ الکوثر کی پہلی تفسیر ، سورۃ الکوثر کی پہلی تفسیر ،سورۃ الکوثر کی پہلی تفسیر

مزید تجزیئے ، فیچرز ، کالمز ، بلاگز،رپورٹس اور تبصرے ( == پڑھیں == )

Imran Rasheed

عمران رشید خان صوبہ خیبر پختونخوا کے سینئر صحافی اور سٹوری رائٹر/تجزیہ کار ہیں۔ کرائمز ، تحقیقاتی رپورٹنگ ، افغان امور اور سماجی مسائل پر کافی عبور رکھتے ہیں ، اس وقت جے ٹی این پی کے اردو کیساتھ بحیثیت بیورو چیف خیبر پختونخوا فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ ادارہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d bloggers like this: