سود سے پاک اسلامی بینکاری نظام کا عندیہ
سود سے پاک اسلامی بینکاری نظام
وفاقی حکومت کا ملک میں اسلامی بینکنگ نظام لانے سمیت سود سے متعلق وفاقی شریعت کورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں دائر سٹیٹ بینک اور نیشنل بینک کی اپیلیں واپس لینے کا اعلان انتہائی خوش آئند ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق اس معاملے پر گورنر سٹیٹ بینک سے خصوصی مشاورت کے بعد ملک میں اسلامی بینکنگ نظام کو آگے بڑھایا جا رہا ہے، تاکہ پاکستان میں جتنا جلد ممکن ہو یہ نظام نافذ کریں۔
وفاقی شرعی عدالت نے 28 اپریل کو 20 سال سے زیر سماعت درخواستوں پر فیصلہ سنایا اور حکم دیا تھا 31 دسمبر 2027ء تک ملک کے بینکنگ نظام سے سود کے خاتم کر دیا جائے۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ 1839ء سے نافذ العمل انٹرسٹ ایکٹ مکمل طور پر اسلامی شریعت کیخلاف ہے،
اسلئے سود کی سہولت کاری کرنیوالے تمام دیگر قوانین اور مختلف قوانین کی شقیں غیر شرعی قرار دی جاتی ہیں۔
عدالت نے غیرملکی قرضوں پر سود کی ادائیگی یا وصولی کو بھی غیر اسلامی قرار دیا اور کہا ریاست ان سے جان چھڑائے۔
پڑھیں : اسلامی عقائد پر خوفناک حملہ
تاہم سٹیٹ بینک نے وفاقی شرعی عدالت کے سودی نظام کے خاتمے
سے متعلق 28 اپریل کے فیصلے پر نظرثانی کیلئے سپریم کورٹ سے
رجوع کر لیا اور دائر درخواست میں موقف اختیار کیا کہ مذکورہ فیصلے
میں بعض تضادات موجود ہیں جن کی درخواست کنندہ وضاحت چاہتا ہے۔
سٹیٹ بینک کی درخواست میں اٹھائے جانیوالے مختلف اعتراضات میں
سب سے بنیادی اعتراض پانچ سال کے اندر سودی بینکاری کے مکمل خاتمے
پر تھا کیونکہ مرکزی بینک کے مطابق سودی نظام کے خاتمے کیلئے
بینکنگ کے نظام کے بنیادی ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کی ضرورت ہو گی،
ملک میں اسلامی بینکاری کو موجودہ سطح پر پہنچنے کیلئے 20 سال
لگے جبکہ مکمل تبدیلی پر اس سے پانچ گنا وقت لگ سکتا ہے۔ سٹیٹ بینک
کا یہ بھی موقف تھا کہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو قانون سازی کی
صلاحیت کے حوالے سے 31 دسمبر 2022ء کی حتمی تاریخ سے مشروط نہیں کیا جا سکتا۔
مزید پڑھیں : شاعر مشرق کے تصَوّرات اور عَہْدِ حاضِر
پاکستان کے بینکنگ اور مالیاتی نظام کو سود سے پاک کرنے کا آغاز 1977-78ء میں کیا گیا تھا،
مشکل اور پیچیدہ ہونے کی وجہ سے اسے مرحلہ وار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
سب سے پہلے خصوصی مالیاتی اداروں، قومی مالیاتی اداروں اور کمرشل بینکوں کے آپریشنز سے سود کے خاتمے کیلئے پاکستان کے مالیاتی اور کارپوریٹ نظام کے قانونی ڈھانچے میں ترمیم کی گئی۔
سود سے پاک شراکتی ٹرم سرٹیفکیٹ کے اجراء کی اجازت کیلئے جون 1980ء میں ترمیم ہوئی۔
مضاربہ کمپنیوں کے قیام کی اجازت دینے، رسک پر مبنی سرمایہ اکٹھا کرنے کیلئے مضاربہ سرٹیفکیٹ کی فراہمی کیلئے آرڈیننس جاری کیا گیا۔
بینکنگ کمپنیز آرڈیننس 1962ء اورمتعلقہ قوانین میں بھی ترامیم کی گئیں۔
جنوری 1981ء میں تمام قومی کمرشل بینکوں اور ایک غیر ملکی بینک میں الگ الگ سود سے پاک کاؤنٹرز نے کام کرنا شروع کر دیا۔
مارچ 1981ء میں درآمدی اور اندرون ملک بلوں کی فنانسنگ کو مارک
اپ کی بنیاد پر منتقل کرنے کیساتھ ساتھ متعلقہ قوانین میں بعض ضروری ترامیم کی گئیں۔
یکم جولائی 1982ء سے بینکوں کو مشارکہ کی تکنیک کے تحت منتخب
بنیادوں پر تجارت اور صنعت کی ورکنگ کیپیٹل کی ضروریات کو پورا
کرنے کیلئے فنانس فراہم کرنے کی اجازت دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں : قومی بیانیہ !
اپریل 1985ء سے تمام اداروں بشمول افراد کیلئے تمام مالیات مخصوص سود سے پاک طریقوں میں سے ایک میں کیے جانے لگے۔
یکم جولائی 1985ء سے پاکستانی روپے میں تمام کمرشل بینکنگ کو سود سے پاک کرنے کی طرف پہلا قدم بڑھا دیا گیا۔
اس تاریخ سے پاکستان میں کسی بھی بینک کو سود پر مشتمل
ڈپازٹس کو قبول کرنے کی اجازت نہیں تھی اور بینک میں
موجود تمام ڈپازٹس نفع اور نقصان کی بنیاد پر تھے۔
کرنٹ اکاؤنٹس میں ڈپازٹس کو قبول کیا جاتا رہا لیکن اِن
کھاتوں میں منافع یا نقصان میں کوئی سود یا حصہ لینے کی
اجازت نہیں تھی تاہم پاکستان میں غیر ملکی کرنسی کے ذخائر
اور غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی پہلے کی طرح جاری رہی۔
یکم جولائی 1985ء سے پاکستان میں بینکوں کی طرف سے اپنائے
جانیوالے طریقہ کار کو نومبر1991ء میں وفاقی شرعی عدالت نے
غیر اسلامی قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت اپیلٹ بینچ میں اپیلیں کی گئیں جنہیں
بینچ نے23 دسمبر 1999ء کو مسترد کرتے ہوئے ہدایت کی کہ سود سے متعلق قوانین 30 جون 2001ء تک ختم کیے جائیں۔
پڑھیئے : سُوچنا جرم نہیں
سٹیٹ بنک کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک کے غیر سودی
بینکاری کے نظام کیلئے اُٹھائے گئے اقدامات کی بدولت اثاثوں کے
لحاظ سے اسلامی بینکوں کا ملک کے مجموعی بینکاری نظام کا حصہ
19.4 فیصد جبکہ ڈیپازٹس کے لحاظ سے یہ حصہ 20 فیصد ہے،
ملک میں 22 اسلامی بینکاری کے ادارے کام کر رہے ہیں جن میں
پانچ مکمل اسلامی بینک جبکہ 17روایتی بینک الگ سے اسلامی برانچیں بنا کر کام کر رہے ہیں۔
وزیر خزانہ نے پانچ سال میں اسلام بینکاری نظام کو منظم کرنے کا
اعلان گورنرسٹیٹ بینک سے روڈ میپ پر بات چیت کے بعد ہی کیا ہے
لیکن موجودہ سیاسی حالات میں سود سے پاک بینکاری کیلئے مطلوبہ قانون سازی کرنا خاصا مشکل نظر آتا ہے۔
یہ بھی پڑھیئے : کہاں ہیں ہم ۔ ۔ ۔ ؟
اسحاق ڈار نے تسلیم کیا کہ 75 سال سے جاری بینکاری نظام کو
یکدم تبدیل نہیں کیا جا سکتا لیکن اُنہوں نے اِس عزم کا اظہار بھی کیا
ہے کہ ملک میں سود سے پاک نظام کے لیے تیزی سے کام کریں گے۔
پاکستان میں قرضوں کے لین دین سے متعلق قوانین روایتی یا کنونشنل بینکاری پر
مبنی ہیں جن کی تبدیلی کیلئے فریم ورک میں اصلاحات کیساتھ ساتھ
موجودہ بینکاری نظام کی بنیاد، روایتی ’’ کائبور‘‘ کا متبادل اِسلامی انسٹرومینٹ
تیار کرنا پڑے گا جبکہ بینکاری عدالتوں، ثالثی کے قوانین، بینکنگ کمپنیز
آرڈیننس اور مرکزی بینک کے نظام سمیت متعدد قوانین میں ترامیم کیلیے
ایک قومی پالیسی تشکیل دی جانی چاہئے تاکہ 2027ء تک سود سے پاک
بینکاری نظام کے ہدف کا حصول یقینی بنایا جا سکے۔
مزید پڑھیئے : بَسْکہِ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا!
مروجہ اسلامی بینکاری پر بلا سوچے سمجھے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ
یہ صرف الفاظ کی تبدیلی ہے، حقیقت میں دونوں نظاموں میں فرق نہیں ہے
لیکن مستند علماء اور ماہرین کا خیال ہے کہ اسلامی بینکاری نظام شرعی اور
فقہی اصولوں کو مدنظر رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے۔
مطلوبہ قانون سازی کی جائے تو مزید ایسی پراڈکٹس بنائی جا سکتی ہیں جو سود کے بجائے تجارت کے اصولوں پر قائم ہوں۔
یہ درست ہے کہ مالیاتی نظام کو تبدیل کرنا آسان نہیں ہو گا لیکن اِس حوالے سے بہت سا کام ہو چکا ہے،
اُمید کی جانی چاہیے کہ اس معاملے میں اسلامی کانفرنس کی سطح پر بھی کوشش کی جائے گی کہ یہ عالم ِ اسلام کا ایک مشترکہ مسئلہ ہے،
اس کے لیے اجتماعی کاوش ناگزیر ہے۔
قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں،
مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ
جتن نیوز اردو انتظامیہ
سود سے پاک اسلامی بینکاری نظام ، سود سے پاک اسلامی بینکاری نظام ، سود سے پاک اسلامی بینکاری نظام ، سود سے پاک اسلامی بینکاری نظام
مزید تجزیئے ، فیچرز ، کالمز ، بلاگز،رپورٹس اور تبصرے ( == پڑھیں == )