سوانح نواسہ رسول امام حسن مجتبیٰ ؑ پر ایک اجمالی نظر(حصہ اول)

ہدیہ عقیدت : عمران رشید خان  : سوانح نواسہ رسول امام

 

تمام حمد ثناءاس خداوند متعال کیلئے جس نے انسان کو چراغ علم کی لو میں پروان چڑھنے کا
قرینہ سکھایا،اور اس کی رہنمائی کےلئے انبیاءو مرسلین بھیجے اورسب سے بڑھ کر فخر موجودات
وجہ تخلیق کائنات منبع وجود تا جدارِ ھل اتیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھیجا، ان کے بعدرب تعالیٰ نے عقل سلیم کےساتھ انسان کی ہدایت کےلئے کچھ انوار کو منتخب کیا وہ انوار آئمہ کی شکلمیں دنیا میں آئے اور انسان کی ہدایت کی ذمہ داری کو بخوبی انجام دیا۔اسی امامت کی دوسرےدرخشاں ستارے کا نام امام حسن مجتبیٰ ؑ ہے۔ امام حسن ؑ اس سلسلے کی اہم کڑی ہیں امام ؑکی صلح تاریخیاہمیت کا حامل ہے ،کچھ لوگ امام حسنؑ کی صلح کو ان کی بزدلی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں اگر امام حق پرتھے تو انہوں نے قیام کیوں نہیں کیا؟ در حقیقت یہ لوگ امام کے صلح کے اسباب سے ناواقف وبے خبر ہیں اگر ہم امام علیہ السلام کی زندگی کے مختلف پہلووں کا مطالعہ کریں اور آپ کی زندگیمیں پیش آنیوالے واقعات کا بہتر انداز میں تجزیہ کریں تو ان تمام سوالوں کا جواب مل جاتاہے۔

امام حسن علیہ السلام کا اجمالی تعارف

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام رسول اللہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوسرے جانشین اورحجت خدا ہیں۔

نام

‘’حَسَن” عربی زبان میں نیک اور اچھائی کے معنی میں آتا ہے۔ روایات کے مطابق یہ نام پیغمبر اکرمخدا کے حکم سے نے آپ کیلئے انتخاب کیا، اسکے معنی ہیں حسن و جمال والا،آپ حسن وجمال میں یکتا تھے۔عربی زبان میں آپ کا اسم گرٰمی حسنؑ تھا اور تورات میں شبر ہے کیونکہ عبرانی زبان میں شبر کا معنیٰ حسنہی ہے۔”حسن ” اور “حسین ” عبرانی زبان کے لفظ “شَبَّر ” اور “شَبیر”(یا شَبّیر)کے ہم معنی ہیں اسلام
حتیٰ عربی میں اس سے پہلے ان الفاظ کے ذریعے کسی کا نام نہیں رکھا گیا تھا۔

کنیت،القاب

”ابومحمد“ اور”ابوالقاسم“ ہیں ،آپ ؑکے القاب، سید، طیب ،امین ،تقی، زکی، صفوتہ اللہ ، مجتبیٰ، شبیہ رسولاور سَیّد (سردار) ہیں ، آپ ؑکا یہ لقب نبی اکرم نے تجویز فرمایا۔مجتبیٰ کے معنی رفعت کے ہیں آپ ؑ اعلیٰکردار کی وجہ سے بلند مراتب پر تھے اسی وجہ سے “مجتبیٰ ” کے لقب سے مشہور ہوئے۔زکی ّ (پاکیزہ) یہآپ ؑ اپنی عصمت و طہارت کی وجہ سے “زکی ” لقب سے مشہور ہیں۔آپ کے بعض القاب امام حسینؑ کیساتھ مشترک ہیں جن میں “ سیّدا شباب اہل الجنہ”، “ریحان النبیّ اللہ ” اور “سبط” ہیں۔ پیغمبر اکرمسے منقول ایک حدیث میں یوں آیا ہے: “حسن ” اسباط میں سے ایک ہے۔آیات و روایات کی روشنیمیں”سبط” اس امام اور نَقیب کو کہا جاتا ہے جو انبیاء کی نسل اور خدا کی طرف سے منتخب ہو۔

ولادت باسعادت

نواسہ رسول، جگر گوشہء بتول حضرت امام حسن مجتبیٰ کی ولادت با سعادت ہجرت کے تیسرے سال 15،رمضان مبارک ،منگل کی رات مدینہ منورہ میں ہوئی۔امام حسن ؑ اپنے چاہنے والوں کے دوسرے امام ،چوتھے معصوم اور اصحاب کساء میں سے ہیں۔

زندگی کے سات سال رسول اکرم (ص) کے زیر سایہ رہے

آپ ؑ امام علی ؑ اور حضرت فاطمہ (س) کے فرزند اور پیغمبر کے بڑے نواسے ہیں زندگی کے
سات سال رسول اکرم (ص) کے زیر سایہ رہے اور رحلت پیغمبر کے بعد تیس سال تک اپنے والد
محترم امیر المومنین ؑ کے دست وبازو بن کر اسلام کی سر بلندی کےلئے کوشاں رہے۔

پڑھیں۔ بیت اللہ میں مولائے کائنات علی ابن ابو طالب ّ کی ولادت کا راز!

امیر المؤمنین حضرت علی ؑکی شہادت 40 ہجری کے بعد امت کی امامت کی عظیم ذمہ داری سنبھالی اور آپؑ 37 سال کی عمر میں امامت اور خلافت کے منصب پر فائز ہوئے اور سنہ 41 ہجری کو معاویہکیساتھ صلح کی۔ آپ کی حکومت کا دور چھ مہینے اور دس دن تھا۔ صلح کے بعد مدینہ میں چلے گئے اور 10سال تک امامت الٰہیہ کی ذمہ داری نبھاتے رہے یہاں تک کہ ایک سازش کے نتیجہ میں مسموم ہوئے اور 48 سال کی عمر میں جام شہادت نوش فرمایا اورمدینہ کے معروف قبرستان جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔

بچپن

رسول اللہ نے اپنے قول و فعل سے امام حسن ؑ کے فضائل بیان کئے ہیں۔نواسہ مسجد میں آجائے تو
منبر سے اتر کر گودی میں بٹھا لیا کرتے تھے۔سجدے میں آجاتے تو سر نہ اٹھاتے تھے ۔عید کا دن تھاتو کاندھے پر بٹھا کر ناقہ بن گئے۔مباہلے کا دن آیا تو انگلی پکڑ کر لے چلے۔تطہیر کی منزل آئی تو گلےسے لگا کر ضعف رسالت کو قوت میں تبدیل کر دیا۔ عید کا دن آیا تو بیٹی زہرا ؑ کی دہلیز پر بیٹھ کر امام حسنؑ کے دہن اقدس کے بوسے لئے۔ اور ہرنی کا بچہ آیا تو اسے شہزادے کے حوالے کر دیا۔

امام حسن ؑ گہوارہ سے ہی لوح محفوظ کا مطالعہ

امیر المومنین ؑ علی ابن ابی طالب ؑ کے زمانے میں بھی اگر کوئی مسئلہ پوچھنے آتا تو آپ امام حسن ؑسے ہیجواب دلواتے تھے۔ساری کتابوں میں ہے کہ امام حسنؑ گہوارہ سے ہی لوح محفو ظ کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔

پڑھیں۔ مظلوم کربلاّ کی ولادت کا روز ہے ۔۔ اتنا ہنسو کہ آنکھ سے آنسو نکل پڑیں

کردار و اخلاق میں رسول اللہ (ص) اور امیر المومنین ؑ کا انداز نظر آتا ہے، قرآن مجید کی آیتیں اور مرسل اعظم کےارشادات امام حسن ؑکی عظمت کی گواہی دے رہے ہیں۔ آیة تطہیر عصمت تو آیت مباہلہ صداقت کا اعلانکر رہی ہے۔ آیت صلح کردار پر روشنی ڈال رہی ہے اور سورة دہر آپ کی سخاوت کا قصیدہ پڑھ رہی ہے۔
امام حسن معصوم ہیں ان کا ہر قول و فعل ، حرکت و سکون میزان عصمت میں تلا ہوا ہے اور اعتراض سے بالاترہے۔مستحق اتباع و تحسین ہے ممکن ہے کہ ہماری سمجھ میں کسی فعل کی مصلحت نہ آتی ہو۔

بادشاہ روم کے دو سوالوں کے جواب

آئمہ علیہم السلام کے علم اللہ کے خاص عطا کردہ تھے انہوں نے کسی سکول میں نہیں پڑھا تھا۔بادشاہ روم نے حاکم ِ شام سے دو سوالوں کے جواب مانگے تھے وہ عاجز آگیا تو اس نے مسئلے کو امام حسنؑ کے سامنے پی  کیا اور آپ نے بتا دیا کہ زمین پر وہ جگہ جو آسمان کے ٹھیک وسط میں واقع ہے وہ پشتِ خانہء کعبہ ہے اور زمین کا وہ خطہ جس پر سورج کی روشنی صرف ایک بار پڑی وہ نیل کی گہرائی ہے جسپر ایک دفعہ حضرت موسیٰ ؑ کے گزرتے ہوئے سورج کی روشنی پڑی تھی اور اس کے بعد پھر دریا حائل ہوگیا۔

سخاوت

امام حسن ؑ کا دستر خوان مدینہ منورہ میں بہت مشہور تھا۔ ایک شخص مہمان آیا اور جب وہ کھانے بیٹھا توایک لقمہ کھاتا تھا اور ایک لقمہ بچا کر رکھ لیتا تھا۔ امام نے فرمایا، تو صاحب عیال ہے ؟
اس نے کہا نہیں، میں نے مسجد میں ایک شخص کو جو کی سوکھی روٹیاں کھاتے دیکھا ہے چاہتا
ہوں اس کی بھی کچھ مدد کر دوں۔ امام نے فرمایا۔بھئی وہ میرے با با علی ؑ مرتضی ٰ ہیں ۔ہم
اہلبیت کریم ابن کریم ہیں جو دنیا کو کھلاتے ہیں۔

اہل سنت کے مشہور فقہی امام ادریس شافعی لکھتے ہیں ،

امام حسن ؑ کی سخاوت اور عطا کے سلسلہ اتنا ہے کہ آپؑ نے اپنی زندگی میں دوبار تمام اموال
اور اپنی تمام پونجی خدا کے راستہ میں دیدی اور تین بار اپنے پاس موجود تمام چیزوں کو دو حصوں
میں تقسیم کیا، آدھا راہ خدا میں دیدیا اور آدھا اپنے پاس رکھا۔

والد گرامی ؑ کے ساتھ

رسول اکرم کی رحلت کے تھوڑے ہی دنوں بعد آپ کے سر سے چاہنے والی ماں کا سایہ بھی اٹھ گیا
اس بناء پر اب تسلی و تشفی کا صرف ایک سہارا علی ؑ کا مہر و محبت سے مملو آغوش تھا ،امام حسن ؑنے اپنے باپ کی زندگی میں ان کا ساتھ دیا اور ان سے ہم آہنگ رہے۔ ظالموں پر تنقید اور مظلوموں کی
حمایت فرماتے رہے اور ہمیشہ سیاسی مسائل کو سلجھانے میں مصروف رہے جس وقت  عظیم الشان صحابؓ جناب ابوذر کو رَبَذہ بھیجنے کا حکم دیا گیا، اس وقت حضرت علی ؑ نے اپنے دونوں
بیٹوں امام حسن اور امام حسین علیہما السلام اور کچھ دوسرے افراد کے ساتھ اس مرد آزاد کو بڑی شان سے
رخصت کیا اور ان کو صبر و ثبات قدم کی وصیت فرمائی۔

جنگوں میں شرکت

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے حوالے سے عام عوام یہ نہیں جانتے کہ آپ کتنے بہادر اور دلیر تھے اور جنگوں میں آپ نے جو کارنامے انجام دیے،ان کی اجمال کچھ یوں ہے کہ جنگ جمل جو 36 ہجری
میں ہوئی اس میں اپنے والد بزرگوار کیساتھ مدینہ سے بصرہ روانہ ہوئے تاکہ جنگ جمل کی آگ بجھا دیں بصرہ کے مقام ذیقار میں داخل ہونے سے پہلے علی ؑکے حکم سے عمار یاسر کے ہمراہ کوفہ تشریف لے گئے تا کہ لوگوں کو جمع کریں۔ آپ کی کوششوں اور تقریروں کے نتیجہ میں تقریباً بارہ ہزار افراد امام کی مدد کیلئے آ گئے لشکر کو فتح نصیب ہوئی۔

جنگ صفین کا احوال

جنگ صفین میں بھی آپ نے اپنے پدر بزرگوار کیساتھ ثبات قدم کا مظاہرہ فرمایا۔ اس جنگ میں آخر تک اپنے پدر بزرگوار کیساتھ رہے

یومِ پیکر وفا، شانِ اہل بیت ؑ، قمر بنی ہاشم حضرت غازی عباس علمدارؑ

اور جب بھی موقع ملا دشمن پر حملہ کرتے اور نہایت بہادری کیساتھ موت کے منہ میں کود
پڑتے تھے۔۔۔۔(جاری) 

حسوانح نواسہ رسول امام

Imran Rasheed

عمران رشید خان صوبہ خیبر پختونخوا کے سینئر صحافی اور سٹوری رائٹر/تجزیہ کار ہیں۔ کرائمز ، تحقیقاتی رپورٹنگ ، افغان امور اور سماجی مسائل پر کافی عبور رکھتے ہیں ، اس وقت جے ٹی این پی کے اردو کیساتھ بحیثیت بیورو چیف خیبر پختونخوا فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ ادارہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d bloggers like this: