سوالات و اعتراضات تو بہت مگر ۔ ۔ ۔ ؟
سوالات و اعتراضات تو بہت مگر
نظام کس نے تباہ کیا، آمریت کا نظام کیوں آیا، معیشت کس نے برباد کی، قوم کو گمراہ کس نے کیا، عوام کو اخلاق باختہ کس نے بنایا، تہذیب کس نے خراب کی، تمدن کا بیڑہ غرق کس نے کیا، بد عنوانی کا ذمہ دار کون ہے، ناانصافی، ظلم، جبر اور دہشتگردی کو جنم کس نے اور فروغ کس نے دیا، قانون شکنی سکھانے اور اسے فروغ دینے والا کون ہے؟،
اسلامی جمہوری فلاحی ریاست ۔ ۔ ۔؟
تعلیمی نصاب، معیار تعلیم اور علم و تحقیق کے اداروں میں سیاست و سیاسی شدت و دہشت گردی کس نے گھسائی؟۔
عدالتوں میں ججوں کی تقرری کے نظام میں خرابی کس نے پیدا کی؟،
افواج کے سربراہوں کی تعیناتی میں ڈنڈی مارنے کی ابتدا کس نے کی،
سماج میں اقدار و روایات کی بیخ کنی میں کس نے کردار ادا کیا،
تھانوں میں رشوت و سفارش کا آغاز کس نے کیا، افسر شاہی کی لوٹ مار کی سرپرستی کس نے کی،
سیاسی کارکنوں کو ہوس پرستی کے راستے پر کس نے ڈالا،
پٹواریوں کو کرپشن کی راہ کس نے دکھائی، تاجروں کو بے ایمانی کس نے سکھائی،
سرمایا داروں، جاگیر داروں اور کارخانہ داروں کو کمزوروں پر ستم ڈھانے کا طریقہ کس نے بتایا،
مذہبی لوگوں کو بے راہ اور گمراہ کس نے کیا؟،
مساجد، مدرسوں، امام بارگاہوں اور خانقاہوں پر جعل ساز کیسے قابض ہو گئے،
وکیلوں، مولویوں، صحافیوں، ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کو بد راہ کرنے والا کون ہے،
غربت، افلاس، پسماندگی، درماندگی اور جہالت بڑھانے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے،
تنزلی، انحطاط اور زوال کا سہرا کس کے سر سجنا چاہیے؟
مذکورہ اور ایسے دیگر بہت سارے سوالات کیے اور اعتراضات اٹھائے جا سکتے ہیں۔
الگ الگ اور مجموعی ذمہ داروں کا تعین بھی ممکن ہے۔
ہر محکمہ، ہر ادارہ، ہر شعبہ، ہر حکومت اور ہر جماعت کو علیحدہ علیحدہ، پوری قوم، ریاست اور سماج کو اجتماعی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
ان کا تعلق ماضی بعید قریب سے ہو یا حال سے۔ بعض برائیاں اور خرابیاں قیام پاکستان کیساتھ منتقل ہوئیں۔
بعض ہر انسانی معاشرے کیساتھ جڑی ہوئی ہیں اور بعض ریاست کیساتھ تعلق رکھتی ہیں۔
وطن عزیز میں جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہو رہا ہے۔
حال والے ماضی بعید و قریب والوں کو اور ماضی بعید والا کوئی حیات ہے یا ماضی قریب والے وہ حال والوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
سوال تو یہ بھی ہے کہ ماضی میں جو برائی اور خرابی کم تھی
اسے بڑھنے سے روکنے کی خاطر ماضی والوں نے کیا سوچا،
کیسی حکمت عملی بنائی، کون سی منصوبہ بندی کی اور کیا کیا اقدامات کیے،
اسی طرح ماضی قریب اور حال والوں نے کیا کردار ادا کیا؟
تعجب خیز بات ہے کوئی کہتا ہے جمہوریت پسندوں نے،
کوئی کہتا ہے آمروں نے، کوئی کہتا ہے مولویوں نے، کوئی کہتا ہے لادینوں نے، کوئی کہتا ہے ججوں نے،
کوئی کہتا ہے جنرلوں نے، کوئی کہتا ہے میڈیا نے، کوئی کہتا ہے ان پڑھوں نے،
کوئی کہتا ہے پڑھے لکھوں نے، کوئی کہتا ہے فلاں نے اور کوئی کہتا ہے فلاں نے تباہ و برباد کیا؟
پوچھنا یہ ہے کہ جس نے بھی بگاڑا اور جس نے بھی خرابیاں پیدا کیں؟
مگر جو خود کو مصلحین و مخلصین بنا کر پیش کرتے رہے یا کر رہے ہیں،
انہوں نے سدباب، اصلاحات اور بہتری کے لیے کیا کچھ کیا؟
الزامات، بہتانات اور تہمتیں دھرنا تو آسان ہے مگر اصلاح احوال اور بہتری لانے کی خاطر قانون سازی،
حکمت عملی کی تشکیل، منصوبہ بندی و عملی اقدامات کس نے، کتنے کیے، نتائج کیا نکلے، ثمرات ملے تو کسے ملے؟
حالات و واقعات گواہ ہیں کہ سچ یہی ہے کہ ماضی بعید و قریب میں سدباب کیا گیا نہ ہی حال میں کیا جا رہا ہے۔
پس نعرے، اعلانات، وعدے، عہد و پیمان اور دعوے ہیں۔
پارلیمنٹ میں کی جانے والی قانون سازی میں جان بوجھ کر سقم چھوڑ دیئے جاتے ہیں،
حکومت نفاذ میں مخلص نہیں ہوتی، عدلیہ کے بیشتر فیصلے پسند و ناپسند کی بنیاد پر ہوتے ہیں،
بڑی سیاسی جماعتیں اور قیادتیں زبانی جمع خرچ اور جھوٹ پر یقین رکھتی ہیں،
معاشرہ دکھاوے اور نمائش کا دل دادہ ہے۔
پولیس و مال سمیت دیگر ادارے اور محکمے اصلاحات و بہتری کے لیے تیار نہیں۔
مولوی، پیر، ذاکر، ڈاکٹر، انجینئر، جج، جنرل، صحافی، ادیب، دانشور، وکیل، تاجر، مزدور، غریب، امیر، سرمایادار،
جاگیردار، صنعتکار، ان پڑھ، پڑھا لکھا اور کوئی بھی شخص،
اشخاص انفرادی و اجتماعی طور پر تبدیلی لانے کے لیے آمادہ نہیں۔
ماضی میں کسی نے انقلاب برپا کرنے کے لیے خلوص کا مظاہرہ کیا نہ حال میں کوئی مخلص نظر آ رہا ہے۔
البتہ اپنے منھ میاں مٹھو سب بن رہے ہیں، پس اس مرض کا علاج کر لیا جائے یا ہو جائے تو شاید بات بنے۔
قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں،
مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ
جتن نیوز اردو انتظامیہ
سوالات و اعتراضات تو بہت مگر ، سوالات و اعتراضات تو بہت مگر ، سوالات و اعتراضات تو بہت مگر ، سوالات و اعتراضات تو بہت مگر
سوالات و اعتراضات تو بہت مگر ، سوالات و اعتراضات تو بہت مگر ، سوالات و اعتراضات تو بہت مگر ، سوالات و اعتراضات تو بہت مگر
مزید تجزیئے ، فیچرز ، کالمز ، بلاگز،رپورٹس اور تبصرے ( == پڑھیں == )