سانحہ پولیس لائنز کس کیلئے کیا پیغام
کالمز بلاگز فیچرز/ سانحہ پولیس لائنز کس
پولیس لائن پشاور کی مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکہ نے ملک بھر کی فضاء کو سوگوار کردیا ،
نماز ظہر کے دوران ہونے والے دھماکہ کے نتیجے میں 100 پولیس آفیسرز اور جوان شہید ہوئے ،
شہید ہونے والوں میں ایک ڈی ایس پی سمیت متعدد تھانوں کے ایس ایچ اوز اور انسپکٹرز شامل ہیں ،
دھماکہ اسقدر شدید تھا کہ مسجد کے ہال کی چھت زمین بوس ہوگئی اور متعدد نمازی کئی ٹن وزنی چھت کے نیچے دب گئیے ،
دھماکہ ہوتے ہی اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ، تمام ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکس سٹاف کو ھسپتال طلب کر لیا گیا ،
دھماکہ کے بعد رات گئیے تک ملبے سے زخمیوں اور لاشوں کو نکالنے کا عمل جاری رہا ،
عوام کی ایک بڑی تعداد خون کے عطیات دینے ھسپتال پہنچ گئی ، حالیہ برسوں میں سانحہ اے پی ایس اور
سانحہ کوچہ رسالدار مسجد کے بعد یہ تیسرا بڑا سانحہ ثابت ہوا ، صوبائی نگران حکومت نے ایک روزہ سوگ اور
سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں کرنے کا اعلان کیا ،
وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر ھنگامہ طور پر پشاور پہنچے جہاں انہوں نے امن و امان کے حوالے سے اعلی سطحی اجلاس کی صدارت کی ، اسکے بعد دونوں بڑی شخصیات نے پولیس لائن کا دورہ کیا اور ھسپتال جاکر زخمیوں کی عیادت کی ، اس دھماکہ نے جہاں ایک طرف ملک بھر کو سوگوار کیا وھیں کئی سنجیدہ سوالات اور شکوک و شبہات کو بھی جنم دیا ، یہ بات طے ہے کہ دھشتگردی کے ہر واقعے میں ماسٹر مائینڈز اور ھینڈلرز کے مقاصد ہوتے ہیں جو وہ خاموشی کے ساتھ حاصل کر لیتے ہیں ، فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ پولیس لائن مسجد میں ہولناک کاروائی کے پیچھے کیا مقاصد پوشیدہ ہیں اور اس دھماکہ کے زریعے کون کس کو کیا پیغام دینا چاھتا ہے لیکن
دھماکہ کے وقت پاکستانی وزیر خارجہ کی روسی ہم منصب کے ساتھ پریس کانفرنس جاری تھی
یہ دھماکہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول زرداری بھٹو روس کے دورہ پر تھے اور دھماکہ کے وقت روسی ہم منصب کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کررہے تھے ،اس دورے میں دونوں ممالک کی قربت میں اضافہ ہوریا تھا پھر اچانک دھماکہ۔ہوگیا ،
متحدہ عرب امارات کے صدر نے بھی اسی روز اسلام آباد میں اربوں ڈالر سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کرنے تھے مگر یہ دورہ پراسرار طور پر چند گھنٹے پہلے منسوخ ہوا ،
دوسرا اہم واقعہ اسی روز متحدہ عرب امارات کے صدر نے پاکستان کے دورے پر اسلام آباد آنا تھا
جہاں انہوں نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبوں کے معاہدوں پر دستخط کرنے تھے لیکن
محض چند گھنٹے پہلے ایران کی دفاعی تنصیبات پر پے در پے ڈرون حملوں کے بعد متحدہ عرب امارات کا
دورہ پاکستان منسوخ کردیا گیا جو اس حوالے سے ایک بہتر فیصلہ گردانہ جارہا ہے کہ
اگر متحدہ عرب امارات کے صدر پاکستان آتے تو ایران پر فضائی حملوں کے تانے بانے براہ راست ان دونوں
ممالک کے ساتھ جوڑے جاسکتے تھے ،
پشاور کے عوام خودکش دھماکہ کو صوبائی اسمبلی کے الیکشن اور بعد ازاں عام انتخابات کے ساتھ جوڑتے ہوئے الزام لگا رہے ہیں کہ دھشتگردی کی اس طرح کی کاروائیوں کو جواز بنا کر انتخابات ملتوی کرانے کے بہانے ڈھونڈے جا سکتے ہیں ، پشاور پولیس لائن خودکش دھماکہ کے پس پردہ مقاصد کچھ بھی ہوں لیکن اس واقعے نےسیکورٹی کے حوالے سے کئی سنجیدہ سوالات کو جنم دیا ہے ،
اتنی سخت سیکورٹی میں دھشت گرد خودکش جیکٹ سمیت اندر کیسے داخل ہوا ،؟یہ سوال ہر شہری کی زبان پر ہے ،
پشاورپولیس لائن کینٹ کےحساس علاقےمیں واقع ہے جہاں اسکے پہلومیں سنٹرل جیل سامنےسول سیکرٹریٹ واقع ہے ،
آئی جی پولیس ، چیف سیکرٹری آفس ، وزیراعلی سیکرٹریٹ اور گورنر ھاؤس بھی چند قدم کے فاصلے پر ہونے
کے باعث یہاں سیکورٹی کے سخت انتظامات ہوتے ہیں ،
پولیس لائن میں داخلےکیلئے ایک ہی مرکزی راستہ ہے جہاں تک پہنچنے کیلئے تین چیک پوائنٹس سے گزرنا پڑتا ہے ،
پولیس لائن میں داخلے سےقبل شناختی کارڈ استقبالیہ پر رکھ لئیے جاتے ہیں اور جس آفیسر سے ملاقات کرنی ہو
اس آفیسر کا نام بھی نوٹ کیا جاتا ہے ،
اتنی سخت چیکنگ کےبعد کسی خودکش حملہ آورکا دھماکہ خیزمواد کے ساتھ پولیس لائن میں داخل ہونا ناممکن دکھائی دیتاہے ،
یہ بات یقینی معلوم ہوتی ہے کہ دھشتگردی کی اس ہولناک کاروائی میں اندر کے لوگوں کا ہاتھ ہے جنہوں نے حملہ آور کو خودکش جیکٹ سمیت لائن میں داخلے کی سہولت فراہم کی ، یہی وہ سوال ہے جو وزیر اعظم شہباز شریف نے پشاور پہنچتے ہی آئی جی پولیس سے پوچھا ، سی سی پی او نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہ ممکن ہے کہ خودکش حملہ آوار کسی سرکاری گاڑی کے زریعے اندر لایا گیا ہو ،
ذرائع کا کہنا ہے کہ تفتیشی آفسران سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے خودکش حملہ آور سہولت کاروں
تک پہنچ چکے ہیں لیکن۔۔
اس میں کچھ ایسی بات ضرور ہے جسے عوام اور میڈیا سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ،
بحرحال جلد یا بہ دیر اس حملہ کےتمام پوشیدہ حقائق منظرعام پرضرور آئینگے ، فی الحال مذمت اور تعزیت کاسلسلہ چل رہاہے ،
ادھرتحریک طالبان پاکستان نےاس حملے کی زمہ داری قبول کرتےہوئے اسے خالد عمر خراسانی کے قتل کاانتقام قراردیا
اور خودکش حملہ آور کا نام حذیفہ بتایا جسکا تعلق مہمند ایجنسی سے ظاہر کیا گیا ،پولیس کی تفتیشی ٹیموں نے حملہ آور کا نام محمد ایاز ولد سلیم بتایا جسکا تعلق مہمند ایجنسی سے ہے ، پولیس نے تصویر کے ساتھ اسکے کوائف بھی جاری کئیے ، اس حملہ آور کے بارے بعض سکرین شارٹ بھی میڈیا کو موصول ہوئی ہیں جو خفیہ اداروں نے چند دن پہلے الرٹ جاری کیا تھا کہ یہ خودکش حملہ آور پولیس کی تنصیبات اور شخصیات پر حملہ کرسکتا ہے ،
بحرحال پشاور کی عوام دھشتگردی کی اس دل راشد واقعے پر ماضی کی طرح خوفزدہ نہیں ہوئی بلکہ
بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے باہر نکلی ، ھسپتال میں خون کے عطیات دئیے اور پولیس کے ساتھ کھڑے ہونے
کا اعلان کرتے ہوئے دھشتگردی کو مسترد کردیا ،
پشاور: خودکش دھماکہ سے
قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں، مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ جتن نیوز اردو انتظامیہ