دہشت گردی کی ایک وجہ فرقہ واریت! سلسلہ چہارم
کالمز بلاگز فیچرز جتن مشعل / دہشت گردی کی ایک وجہ فرقہ واریت!
مذہب کوئی بھی ہو اس کی تعلیمات میں خلق خدا سے محبت اور اس کی خدمت عبادت کا درجہ رکھتی ہے مگر عملی طور پر اس کے برعکس نظر آتا ہے کہ ہر مذہب کے بعض پیروکار دوسرے مذاہب تو درکنار اپنے مذہب کے پیروکاروں کو بھی اختلافات کی بنیاد پر برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔
ہندومت کے پیروکار جانوروں کا گوشت یہ کہہ کر نہیں کھاتے کہ ایسا کرنا ظلم ہے لیکن چھوت چھات کا
نظام ہندومت کا بنیادی ڈھانچہ اور عدم مساوات کا آئینہ دار ہے۔
بھگوان کو ماننے والے نچلی ذات کے انسانوں کو اعلی ذات کے ہندو نیچ اور بھوش گردان کر انہیں جینے
کا حق دینے کے لیے آمادہ نہیں۔ چہ جائے کہ کسی غیر ہندو کو برداشت کریں۔
بھارت میں مودی سرکار، بھارتیہ جنتا پارٹی،وشوا ہندو پریشد،سنگھ پری وار اور آر ایس ایس آر سمیت شدت پسند
ہندو غیر ہندووں کو ہندو مت میں جبری طور پر داخل کرنے ورنہ ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
برما میں بدھ مت کے پیروکار ان بھکشووں نے مسلمانوں کا قتل عام جائزکر رکھا ہےجو اسلیے برہنہ پا رہتے ہیں
کہ پاووں کے نیچے آکر چیونٹیاں نہ کچلی جائیں۔
اسرائیل میں صیہونی یہودی اس قدر نسلی تعصب و امتیاز رکھتے ہیں کہ کسی غیر نسل کے انسان کو یہودیت قبول کرنے پر بھی یہودی ماننے کے لیے تیار نہیں۔خود کو اعلٰی و ارفع تصور کرتے اور دوسروں کو کم درجہ سمجھتے ہیں۔
امریکا و یوروپ میں مسیحی عقائد کے حامل افراد مقتدر ہوتے اور بنیادی انسانی حقوق دینے کے علم بردار ہیں
مگر یہ سب کچھ زبانی جمع خرچ تک ہے۔
پوری دنیا کو پریشان و مضطرب رکھ کر کنٹرول کرنے اور دبا کے رکھنے کو اپنا حق خیال کرتے ہیں
بلکہ بعض ممالک میں زبردستی گھس کر وہاں لوگوں کا قتل عام کرنا اور بنیادی حقوق کی پائے مالی روا
سمجھتے ہیں۔
افغانستان، شام، لیبیا، تیونس،مصر،عراق، فلسطین، کشمیر اور کئی ممالک میں اس کی زندہ امثال موجود ہیں۔
افسوس کہ دین اسلام کے ہیروکار بھی اختلاف رائے رکھنے والے اپنے ہی ہم مذہبوں کو برداشت نہیں کر تے۔
وہ عمل جہاد اور قتال جو کفار کے خلاف مشروط طور پر فرض کیا گیا ہے اسے اپنے ہی مسلمانوں
کے خلاف غیر مشروط طور پر عمل میں لایا جا رہا ہے۔
بعض شدت پسند اور انتہا پسند غیر مسلموں کو بغیر کسی وجہ کے قتل کرنا جائز تصور کرتے اور کچھ
اپنے مسلمان بھائیوں کو اختلاف رائے کے سبب قتل کرنا حلال خیال کرتے ہیں۔
اسی لیے ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے اور خودکش حملے کیے جاتے ہیں حتی کہ مسجدوں، خان قاہوں، امام بارگاہوں،جنازہ گاہوں،عید گاہوں،اسپتالوں،تعلیمی اداروں،دینی مدرسوں،مندروں،گرجا گھروں اور عوامی مقامات بے گناہ لوگوں کو نشانہ ظلم و ستم بنایا جاتا اور ذمہ داری بھی قبول کر لی جاتی ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالی نے واضح طور پر فرمایا ہے۔” و من قتل مومنا متعمدا فجزائہ جھنم خالدین فیھا”
(اور جس نے کسی ایمان والے کو جان بوجھ کر قتل کیا اس کا بدلہ دوزخ ہے جس میں ہمیشہ رہے گا”
یعنی کسی مسلم و مومن کو نا حق قتل کرنے والا ایسے ہی دوزخی ہے جیسے کوئی کافر و مشرک اور منافق جہنمی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ
” اگر تم پیٹ بھر کر سو جاو اور تمہارا پڑوسی بھوکا سوئے تو تم کامل مومن نہیں ہو سکتے ”
گویا ہمسایہ کسی بھی مذہب،عقیدے،مسلک اور فرقے سے تعلق رکھتا ہو۔پس انسان اور ہمسایہ ہونا ہی کافی ہے۔
قرآن کریم کاعنوان” انسان” ہےاور جابجا انسان کی خیر و فلاح اور بھلائی ونجات کی بات کی گئی ہے۔
سورت العصر میں فرمایا کہ "والعصر ان الانسان لفی خسر”( قسم ہے عصر کی کہ انسان خسارے میں ہے)
سورت التین میں فرمایا” لقد خلق الانسان فی احسن تقویم”( بے شک انسان کو خوب صورت پیدا کیا گیا ہے)
اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسان کی زندگی بچانا پوری انسانیت کو بچانا ہے مگر شدت پسند و انتہا پسند اور شر پسند و دہشت گرد خدا و رسول کی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر اپنے حق میں استعمال کر کے خون ناحق بہانا جائز و حلال کیے ہوئے ہیں۔ حد یہ ہے کہ انتہا پسند خود بھی ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے اور آپس میں بھی باہم قتل کو جائز سمجھتے ہیں۔
فرقوں، مسلکوں، فقہوں اور مکتبوں میں تقسیم بھی ایک دوسرے کے خلاف گمراہی،ضلالت،کفر و شرک،منافقت اور واجب القتل ہونے کی راہ ہموار کر رہی ہے۔
رب تعالی نے صاف صاف فرما دیا۔”
واعتصموا بحبل اللہ جمیعا” ( اور اللہ کی رسی کو مل کر مضبوطی سے تھام لو) پھر فرمایا”
ولا تفرقوا” ( اور تفریق مت ڈالو) اور ساتھ ہی واضح کر دیا”
ان الدین عند اللہ الاسلام”( بلاشبہ اللہ کے نزدیک دین تو اسلام ہی ہے” یعنی اللہ کی رسی دین اسلام ہے
اور اسے چھوڑ کر مسلک، مکتب، فرقے اور فقہ کو تھامنا اور اس کی بنیاد پر گمراہی و قتل کے
فتوے جاری کرنا فرقہ پرستی و تفرقہ بازی ہے۔
حیرت ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ تہتر فرقے بنیں گے اور ایک” ناجی” ہو گا۔ جب فرقہ ہوا تو ناجی کیسے ہو گا ؟ خدا و رسول کے احکامات و ارشادات کی خلاف ورزی کر کے کوئی نجات نہیں پا سکتا نہ کوئی کسی انسان کو بےجا قتل کر کے جنت میں جا سکتا یے۔
جنت مومینین و مسلمین کے لیے بنی یے۔ سوال یہ ہے کہ کوئی غیر مسلم دین اسلام میں داخل ہونا چاہے تو اسے مسلم و مومن بنایا جائے گا یا فرقہ و فقہ پرست؟
افسوس کہ قرآن و سنت کو عام کر کے عملی مومن و مسلم بننے کے بجائے ہم لوگ شیعہ، سنی،
دیوبندی، بریلوی، حیاتی، مماتی، حنفی، مالکی، حنبلی، شافعی، جعفری، اہل حدیث اور مقلد و غیر مقلد ہونے پر زور دے رہے
اور اختلاف رائے کے باعث ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔
ملت کفر دین اسلام اوrامت مسلمہ کے درپے ہے اور ہم خود بھی اسی شاخ کو کاٹنے پر لگے ہوئے ہیں
جس پر بسیرا ہے۔
مسلمانو!
سوچو اور سمجھو ورنہ اہل کفر کسی بھی شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی، حیاتی، مماتی، حنفی، مالکی، حنبلی، شافعی،جعفری،
اہل حدیث اور مقلد و غیر مقلد کو نہیں چھوڑیں گے
صرف اس لیے کہ سب کے سب خود کو دین اسلام سے جوڑتے اور مسلمان کہتے ہیں
دہشت گردی کی ایک وجہ فرقہ واریت!
جتن مشعل میں اگلا آرٹیکل




قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں، مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ جتن نیوز اردو انتظامیہ