درسی صاحب اور چاچا چن پردیسی
درسی صاحب اور چاچا چن پردیسی
درسی صاحب جناب بڑے مبلغ تھے۔ ان کا تبلیغی جماعت کی جانب سے تیس برس سے دنیا بھر میں مشن پر خدمات کا ریکارڈ تھا۔
راہ جاتی گوریوں کالیوں کو روک کر ایسا روانی سے بولتے کہ دوسری جانب والا فریفتہ ہو جاتا۔
گھر وقت پر پیسے بجھواتے تھے۔ اپنا کاروبار تھا اس لیے اچھا کما لیتے تھے بچی بچے بیاہے گیے تھے۔
ان کی بیگم شوہر کا انتظار کرتے کرتے بوڑھی ہو گی تھی۔ تیس برس سے جدائی چلی آ رہی تھی۔
مشہور تھا کہ تبلیغ کی خاطر ایک شخص یعنی ’’ درسی صاحب ‘‘ نے کس طرح گھر بار چھوڑا۔ واہ واہ۔
پڑھیں : ۔۔۔۔ حسن صومالیہ ۔۔۔۔
چاچا چن پردیسی ان کی جماعت میں تھا اور بہت امیر اور سخی تھا۔
درسی صاحب کے پردہ داری میں سخاوت کے خطبے ان پر اثر کر گے تھے۔ باز نہیں آتے تھے۔
اکثر خواتین کی پردہ داری میں مدد پر الٹا تہمت کے تمغے سجا چکے تھے۔
دو چار مرتبہ کسی مرد مومن کی گھر جا کر مدد کر ڈالی تو ان کی ازواج نے
شوہر کی غیر موجودگی میں ان سے فون پر مراسم بڑھا لیے۔ چاچا چن پردیسی
کو بڑی مشکل سے مزید رقم دے دلواکر پیچھا چھڑانا پڑتا تھا۔
مزید پڑھیں : ۔۔۔۔ بریگزٹ ۔۔۔۔
ایک مرتبہ تو ایک خاتون اپنے شوہر سے علیحدگی کے کاغذات لے کر چاچا چن پردیسی کے گھر چلی گی تھی۔
انہوں نے بٹھایا کھلایا جب آنےکی وجہ معلوم ہوئی تو پیروں تلے زمین نکل گئی۔
اب کافی دیر ہو چکی تھی۔ پلان کے مطابق خاتون کا شوہر ہمراہ درسی صاحب و دیگر چاچا چن پردیسی کے گھر پہنچ گئے۔
پھر کیا تہمتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ علیحدگی کے کاغذات تھے کوئی طلاق کے تھوژی تھے۔
بڑی بڑی قسمیں کھا کر چاچا چن پردیسی نے عزت بچائی اور خرچہ پانی دیکر اس خاتون کو رخصت کیا۔
یہ بھی پڑھیں : ’’ لاڈی کور ‘‘
ایک مرتبہ ’’ درسی صاحب ‘‘ کا کہیں ہاتھ تنگ تھا۔ کاروبار میں نقصان ہو گیا تھا۔
گھر خرچہ بھیجنے کے لیے معمولی پیسے تک نہ تھے۔ دو ماہ گزر گئے۔
چاچا چن پردیسی کو سات سمندر پار کوئی کام تھا وہ بتا کر چلے گئے اور اپنے کام نمٹا کر ’’ درسی صاحب ‘‘ کے پنڈ پہنچ گئے۔
پتہ تو معلوم نہ تھا نشانیاں بتا کر پہنچ ہی گئے تھے۔ سیانے آدمی تھے اس لیے سیدھا مسجد میں پہنچے۔
تعارف کروایا اور دس ہزار پیش امام صاحب کو مٹھی میں تھما دیا کہ مسجد انتظامیہ کو پتہ نہ چلے۔
پیش امام نے خبر کر ڈالی۔ گاوں کے لوگ اکٹھے ہو کر مسجد چلے آئے۔ دو گھنٹے تک درسی صاحب پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔
یہ بھی پڑھیئے : ’’11 سالہ ترکونے‘‘
درسی صاحب کو گھر والوں کے ذریعے سے خبر مل چکی تھی۔
ان کی ہدایت پر اہلخانہ نے چاچا چن پردیسی کو درسی صاحب کا دشمن قرار دے دیا تھا۔
معزز افراد نے چاچا چن پردیسی کو یرغمال بناتے ہوئے ’’ درسی صاحب ‘‘ کے اہلخانہ کو وہاں سے نکال دیا
اور ان کی کفالت کی رقم مبلغ دس لاکھ روپے خود ہتھیا لی تھی۔
دراصل ’’ درسی صاحب ‘‘ سے دو قتل ناحق سرزد ہو چکے تھے۔ علاقے میں ان کی دہشت تھی۔ بچے بہت چھوٹے تھے۔
مفروری کاٹتے کاٹتے بیرون ملک پہنچ گئے تھے جہاں سے پھر تبلیغ کا سفر شروع ہوا تھا۔
اب جن افراد کا قتل ہو چکا تھا ان کے اہلخانہ نے دھمکی دے رکھی تھی
کہ جس دن درسی پنڈ گھسے گا قتل ہو جائے گا۔ اس کی فیملی کو بھی پنڈ چھوڑنے کی اجازت نہ تھی۔
چاچا چن پردیسی کا انجام ۔۔۔ ؟
وہ دس لاکھ روپے جو چاچا چن پردیسی ’’ درسی صاحب ‘‘ کے اہلخانہ
کے لیے لایا تھا وہ خون بہا کی مد میں کاٹ لیے گئے۔ ابھی چالیس لاکھ مزید ادائیگی کرنا تھی۔
چاچا چن پردیسی کو کمر پر چُھرا رکھ کر ایئر پورٹ لایا گیا اور وہاں واپس نہ آنے کی قسم لے کر آزاد کر دیا گیا تھا۔
چاچا چن پردیسی واپس چلا گیا تھا۔ اس نے پردہ داری میں سخاوت کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا تھا۔
درسی صاحب اور تبلیغی جماعت سے رابطہ کیے دو سال بیت چکے تھے۔ انہوں نے بھی رابطہ نہ کیا تھا۔
چاچا چن اکثر سکتے میں چلا جاتا تھا۔ وہ اکثر پینے لگ گیا تھا۔
قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں،
مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ
جتن نیوز اردو انتظامیہ
درسی صاحب اور چاچا چن پردیسی ، درسی صاحب اور چاچا چن پردیسی ،
= پڑھیں = ذرا میری بھی سنو عنوان کے تحت مزید اہم اور معلوماتی خبریں