جو بووو گے وہ لازمی کاٹو گے

جو بووو گے وہ لازمی کاٹو گے

سیانوں نے جو کچھ کہا غلط نہیں کہا۔ بالکل درست کہا۔ جو دوسروں کے لیےگڑھے اور کنواں کھودے وہ ان میں خود گرتا ہے۔

شاعر نے کہا ” لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا ” کسی نے کہا کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔

علامہ اقبالؒ نے کہا کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں، ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

نغمہ نگار نے کہا ” تم حوصلہ نہ ہارو چھٹ جائیں گے اندھیرے ”

مذکورہ قیمتی باتیں سب لوگوں کے لیے ہیں۔

میاں محمد نواز شریف ہو یا آصف علی زرداری، عمران خان ہو یا میاں محمد شہباز شریف۔

جو بھی اچھا کرے یا برا اسے سزا و جزا ضرور ملتی ہے۔ مکافات عمل قدرتی ہے۔

پڑھیں : صحافت یا پل صراط ۔۔۔؟

تاریخ عالم کی ورق گردانی کیجیے تو بادشاہوں کی داستانوں میں صاف صاف مکافات عمل کی تصاویر اور نقشے نظر آئیں گے۔

پاکستان کی ستر سالہ سیاسی تاریخ بھی سبق آموز، نصیحت آموز اور باعث عبرت ہے۔

جس کسی نے کرسی اقتدار پر براجمان ہو کر تکبر و غرور کا مظاہرہ کیا اس کا سر ضرور نیچا ہوا،

اور شملہ کسی اور زور آور کے قدموں میں جا گرا۔

فارسی زبان کا محاورہ تو ” ہر فرعون را موسی” ہے،

مگر وطن عزیز میں اسے یوں کر لیجیے” ہر فرعون را فرعون ”

کیونکہ پاکستان میں جو بھی آیا جس نے بھی اقتدار سنبھالا وہ منکسرالمزاج اور فریاد رسی کرنے والا نہیں تھا۔

اپوزیشن میں رہ کر عوام کیساتھ ہمدردی و غم گساری کرنیوالے مقتدر ہو کر اکل کھرے، اکڑو اور اکھڑ ثابت ہوئے۔

گزشتہ عشرے کے دوران میاں نواز شریف اور ان کے بعد عمران خان نے بھی رعونت کا اظہار کیا۔

میاں صاحب بے آبرو ہو کر کوچہ اقتدار سے نکالے گئے تو عمران خان برسر اقتدار آئے۔

موصوف نے تو غرور و تکبر کی ساری حدود عبور کر لیں۔

مزید پڑھیں : پی ڈی ایم کیلئے لمحہ فکریہ

ملک و قوم کیلئے کچھ نہیں کیا البتہ احتساب کے نام پر اپوزیشن والوں کو جیلوں اور عدالتوں کی سیر خوب کروائی۔

خود جس شاخ پر بیٹھے تھے وہ بےحد کمزور اور حقیقی معنوں میں بیساکھیاں تھیں۔

معیشت درست کر سکے نہ عوام کو سہولیات دے پائے۔

چور لٹیروں سے وصولیاں کیں نہ ثبوت و شواہد فراہم کر کے انہیں سزائیں دلوا سکے۔

قوم میں محرومیاں اور مایوسیاں بڑھ گئیں چنانچہ بیساکھیاں سرک گئیں اور اقتدار جاتا رہا۔

بڑی خفت و شرمندگی کیساتھ ایوان اقتدار سے نکلے۔ اقتدار میں مخالفین آ گئے۔

حالات و واقعات نے کروٹ لی۔ جو مقدمات میں پھنسائے گئے تھے وہ آزاد ہو گئے اور جو اقتدار سے نکلے وہ زیر عتاب آ گئے۔

عمران خان نے روش اختیار کی تھی کہ مخالفین کو الزامات کے تحت عدالتوں کے

ذریعے آئین کی دفعات 62،63 کی روشنی میں سیاست سے ہی باہر کروا دیں اور یہاں

تک کہا تھا کہ” اگر میں بھی ذد میں آوں تو مجھے بھی نااہل گردانا جائے” مگر اب جبکہ

وہ خود توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق نااہل قرار پائے ہیں تو تسلیم کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔

وہ مخالفین کے بارے میں یہ بھی کہتے رہے کہ عدالتیں فیصلے دیں گی تو کیا سڑکوں پر آ کر عوام کو زحمت دی جائے گی؟

اور اب خود ماننے کیلئے تیار ہیں نہ ہی سڑکوں کی بندش کیخلاف ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : آخر کب تک لکھیں گے ۔۔۔؟

کل تک جو کچھ مخالفین کیلئے حرام تصور کرتے تھے آج وہی کچھ اپنے لیے حلال سمجھ لیا ہے۔

جس رویے اور طرز عمل پر ایک مذہبی تنظیم کو دہشتگرد قرار دیا تھا آج ویسے ہی رویے اور طرز عمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

حالانکہ فی الحال عدالت عالیہ اور عدالت عظمی میں اپیلوں کا حق باقی ہے۔

خود کو مقبول رہبر و رہنما سمجھنے سے وہ سب کچھ جائز نہیں ہو جاتا جو دوسروں کیلئے ناجائز ہو۔

آئین و قانون اور ان کے مطابق فیصلے بھی سب کیلئے برابر ہیں، لہذا تسلیم کرنا چاہئیں۔

ہمت و حوصلے کیساتھ مقابلہ کر کے حقیقی رہبری و رہنمائی کا ثبوت دینا چاہیے۔

زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں، ان سے نمٹنے کیلئے صبر و تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

غلام محمد، ایوب خان، یحیی خان، شہید بھٹو، ضیاء الحق، نواز شریف، شہباز شریف، شہید بینظیر، پرویز مشرف

اور آصف علی زرداری نے جو کیا خود بھی کسی نہ کسی شکل میں بھگتا،

اور عمران خان صاحب! مان لیجیے کہ آپ بھی بھگت رہے ہیں اور شاید مزید بھگتیں گے۔

امریکہ، اسٹیبلشمنٹ اور کرسی اللہ قادر مطلق کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ جو بووو گے وہ لازمی کاٹو گے۔

قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں،
مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ
جتن نیوز اردو انتظامیہ

جو بووو گے وہ لازمی کاٹو گے ، جو بووو گے وہ لازمی کاٹو گے ، جو بووو گے وہ لازمی کاٹو گے ، جو بووو گے وہ لازمی کاٹو گے

مزید تجزیئے ، فیچرز ، کالمز ، بلاگز،رپورٹس اور تبصرے ( == پڑھیں == )

Imran Rasheed

عمران رشید خان صوبہ خیبر پختونخوا کے سینئر صحافی اور سٹوری رائٹر/تجزیہ کار ہیں۔ کرائمز ، تحقیقاتی رپورٹنگ ، افغان امور اور سماجی مسائل پر کافی عبور رکھتے ہیں ، اس وقت جے ٹی این پی کے اردو کیساتھ بحیثیت بیورو چیف خیبر پختونخوا فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ ادارہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d bloggers like this: