جمہوریت اور آمریت دونوں سگی بہنیں ۔ ۔ ۔؟

جمہوریت اور آمریت دونوں سگی بہنیں

ہم حسب عادت روز لکھتے ہیں اور پھر خاص طور پر وہ لوگ جو میدانِ صحافت کے کھلاڑی ہیں۔ اپنا اپنا فریضہ انجام دیتے رہے ہیں اور آج تک ان کی خدمات جاری و ساری ہیں۔ دعاگو ہیں کہ ایسے ایماندار، محبِ وطن لکھاریوں اور بولنے والوں کو اللہ رب العزت اپنے حفظ و امان میں رکھے، کیونکہ ہمارا براہ راست صحافت سے تو تعلق نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر فنون لطیفہ سے گہرا تعلق ہونے کے ناطے صحافت سے ہمارا لگاﺅ یقینا ایک فطری عمل ہے۔ اگربہ امر مجبوری ہم لکھ نہیں سکتے تو۔ ۔ ۔ پڑھنا اور سننا، ہماری گھٹی میں شامل ہے۔ ۔ ۔

پڑھیں : چُور مچائے شُور

اپنے دل کی بھڑاس کو کم کرنے کیلئے ویسے تو روز لکھتے ہیں لیکن نشر واشاعت کے بجائے اپنا لکھا اپنی ہی کسی فائل میں گم کر دیتے ہیں، کیونکہ۔ ۔ ۔ ہم ڈر گئے ہیں،

ایک ہم ہی کیا؟ نہ جانے کتنے عظیم لوگ جن کی پوری زندگی سچ بولنے اور لکھنے میں گزری ہے، یہی بڑے لوگ برملا فرما رہے ہیں کہ ۔ ۔ ۔ ہم ڈر گئے ہیں، بلکہ خوف ان کے چہروں پہ چھلکتا نظر آتا ہے۔ ۔ ۔ سوچئے ہم جیسے ان پڑھ، گنوار لوگوں کا ڈر کے مارے کیا حال ہو گا؟۔

لیکن دل کی بے چینی کچھ اس طرح بڑھی کہ مجبوراً ہمیں خیالی صاحب کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔

تیل دیکھ اور تیل کی دھار دیکھ

قارئین کرام ہم بارہا خیالی صاحب سے اپنا تعلق بتاتے رہے ہیں،

خیالی صا حب نہ صرف ہمارے دوستِ محسن ہیں بلکہ زندگی کا ایک بھرپور حصہ خیالی صاحب کیساتھ گزرا ہے۔

تاہم گردش ایام نے ہمیں خیالی صاحب سے دور۔ ۔ ۔ بلکہ بہت دور کر دیا،

اور یوں ہم اپنے دوستِ محسن کی نصیحتوں، واعظ و پند سے محروم ہو گئے۔

مرتا کیا نہ کرتا والی بات، کہ ہم نے خیالی صاحب کی تلاش بسیار شروع کر دی،

معلوم ہوا۔ ۔ ۔ خیالی صاحب تو ” جوں کے توں“ موجود ہیں،

چھینی اور ہتھوڑی کو مسلسل، بلکہ بے حد استعمال کرتے ہوئے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں،

اور یوں وہ اپنے قریبی لوگوں بالخصوص ہم جیسے شاگردوں سے نہ صرف کٹ کر رہ گئے ہیں، بلکہ انہوں نے شاید علیحدگی ہی اختیار کر لی ہے۔

ماں بیمار ہے ۔ ۔ ۔ !

ہم میں اتنی جرات کہاں کہ خیالی صاحب سے پوچھیں۔ ۔ ۔ محترم ماجرا کیا ہے، اس درد کی دوا کیا ہے؟۔

ہم ڈٹ گئے کہ بات تو کریں گے کیونکہ ہمیں اپنے درد کی دوا چاہئے تھی،

اورخیالی صاحب ہی اس درد کو رفع کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے تھے۔

قصہ مختصر۔ ۔ ۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے خیالی صاحب کے دولت خانے پر دستک دی، ہماری کانپیں ٹانگ رہی تھیں کہ نہ جانے۔ ۔ ۔ کیا ہو گا۔

ابھی ہم دوسری دستک کیلئے ہاتھ اٹھا ہی رہے تھے کہ اندر سے خیالی صاحب کی کڑکتی و پھڑکتی ہوئی آواز سنائی دی، کیا دروازہ توڑنے کا ارادہ ہے، پھر کیا تھا۔ ۔ ۔؟

خیالی صاحب زوردار طریقے سے نمودار ہوئے۔ ۔ ۔ اور ہماری شکل دیکھتے ہی یوں منہ بنایا، جیسے کڑوی دوا کا گھونٹ پی لیا ہو،

ایک لمحہ تو اپنی بڑی بڑی اور خونخوار لال انگارہ جیسی آنکھوں سے گھورتے رہے،

پھر پھاڑ کھانے والے لہجے میں بولے۔ ۔ ۔ تم ۔ ۔ ۔ تم ابھی تک زندہ ہو؟ تمہیں تو بہت پہلے ہی مر کھپ جانا چاہئے تھا۔

مگر تم ایسی ڈھیٹ مٹی کے ہو کہ نہ صرف زندہ، بلکہ میرے سامنے کھڑے ہو۔ ۔ ۔

بولو کون سی قیامت آ گئی ہے کہ تم اپنا ہونق چہرہ لے کر نازل ہوگئے؟

کیونکہ تم تو ہو ہی منحوس، اب کون سی نحوست لائے ہو، جلدی بولو۔ ۔ ۔ ورنہ؟

صحافیوں کا تحفظ ۔۔۔ ؟

ہم نے انتہائی عاجزی سے کپکپاتے ہوئے کہا، خیالی صاحب ہم تو پہلے ہی سے ستائے ہوئے ہیں۔

براہ کرم ہماری عرضی سن لیجئے تاکہ دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے، ہم تکلیف میں ہیں،

خیالی صاحب ہمیں مسلسل اپنی خوفناک آنکھوں سے گھور رہے تھے کہ اندر سے آواز آئی کہ کون ہے؟،

خیالی صاحب نے بڑی بے اعتنائی سے ( غالباً بھابھی تھیں ) جواب دیا، نیک بخت، وہی بدبخت، احمق او رگاﺅدی انسان شیخو جی نازل ہو چکے ہیں۔

شاید ہمارے بُرے دن آنیوالے ہیں کیونکہ یہ شخص پیدائشی احمق ہے۔

اچھا اچھا میں نے بیٹھک کا دروازہ کھول دیا ہے، انہیں بٹھائیں میں چائے بھجواتی ہوں۔

بھابھی کی بات سن کر ہماری سانسیں بحال ہوئیں کہ جیسے آئی ایم ایف نے تمام قرضے معاف کر دیئے ہوں۔

چائے کی چسکی لیتے ہوئے خیالی صاحب مخاطب ہوئے، ہاں تو احمق انسان بتاﺅ کیونکر نازل ہوئے؟۔

ہم نے بڑے باادب انداز میں کہا، جناب محترم ” آدھے گنجم، آدھے بالم “ ہم کافی دنوں سے پریشان ہیں،

جب سے سینئرصحافی سعید قاضی صاحب نے ایک شگوفہ چھوڑا ہے تو پریشانی مزید بڑھ گئی ہے۔

سُوچنا جرم نہیں ہے

اوئے احمق اور نکمے انسان، اب ڈرامائی باتیں کرنے کا وقت نہیں، آسان لفظوں میں مدعا بیان کرو ورنہ۔ ۔ ۔

ہم نے کپکپاتے اورڈرتے ڈرتے کہا، خیالی صاحب، بزرگ صحافی سعید قاضی صحاحب نے کہا ہے ۔ ۔ ۔

جمہوریت اور آمریت دونوں سگی بہنیں ہیں۔ ہمیں کچھ سمجھا دیجئے واللہ ہم بہت پریشان ہیں ۔ ۔ ۔

آپ جانتے ہیں ہم تو جمہوریت کے متوالے ہیں مگر قاضی صاحب نے ایسا کیوں کہا سمجھ نہیں آئی

خیالی صاحب پہلے تو کھا جانیوالی نظروں سے دیکھتے رہے۔ ۔ ۔ پھر ایک لمبی سانس لیتے ہوئے بولے،

کیا تم نے ان دونوں سے رشتہ کرنا ہے اور پھر تمہیں اس معاملے سے کیا فکر لاحق ہے؟ جاﺅ اللہ اللہ کرو۔

خیالی صاحب ہماری رہنمائی فرما دیں ہم بہت پریشان ہیں، ہم نے ہمت کرتے ہوئے کہہ ہی ڈالا،

ہمیں نراش مت کیجئے، ورنہ ہمارا دم گھٹ جائیگا،

وطن عزیز میں چھائی مہنگائی اور بھوک و افلاس نے تو ویسے ہی ہمیں جیتے جی مار ڈالا ہے،

اوپرسے سعید قاضی صاحب نے نئی افتاد بتا کر ہمیں جینے کے قابل ہی نہیں چھوڑا۔

خیالی صاحب چند لمحے توقف کے بعد بولے، شیخو جی تم نہیں سمجھ سکو گے کیونکہ تم ایک احمق انسان ہو،

پھر بولے دیکھو بات اتنی سی ہے کہ جمہوریت کا تعلق جمہور سے ہوتا ہے،

جمہور کسی پرندے یا جانور کا نام نہیں، بلکہ جمہور عوام ہوتے ہیں، جو آزادی اظہار، حق رائے دہی کا حق رکھتے ہیں اور۔ ۔ یوں جمہوریت وجود میں آتی ہے۔

جنرل باجوہ کا اعتراف مداخلت ؟

جمہوریت کا کام عوام ” جمہور“ کے حقوق کا خیال، انکی شخصی آزادی کو قائم رکھنا ہے،

مگر۔ ۔ ۔ بدقسمتی سے تمہارا سوال اور جناب سعید قاضی صاحب کی منطق بلاشبہ ٹھیک ہے۔

کیونکہ وطن عزیز میں حقیقی جمہوریت ماضی سے لے کر اب تک آئی ہی نہیں۔

اس کی کیا وجہ ہے؟ ہم نے ہونقوں کی طرح ایک اور سوال داغ دیا۔

خیالی صاحب ( پہلی بار) بے ساختہ مسکرا کر بولے،

شیخوجی وطن عزیز کی تاریخ سے سبق حاصل کرنا ضروری ہے اور اس کا اعتراف جناب جنرل باجوہ صاحب نے اپنی الوداعی تقریر میں کر دیا ہے،

جسے سب کو سمجھنا ہو گا کہ کیونکہ یہی وہ امید کی پہلی کرن ہے،

اب سیاستدان حضرات کو اپنا مجموعی کردار ادا کرنا ہو گا، اپنی غلطیوں کی تلافی بھی کرنا ہو گی،

اگر سیاستدان حضرات نے ماضی کی روش کو دہرانے کی کوشش کی تو خدانخواستہ قاضی سعید صاحب کی بات ( میرے منہ میں خاک ) تسلیم کرنا پڑے گی کہ جمہوریت اور آمریت دونوں سگی بہنیں ہیں۔

قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں،
مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ
جتن نیوز اردو انتظامیہ

جمہوریت اور آمریت دونوں سگی بہنیں ، جمہوریت اور آمریت دونوں سگی بہنیں ، جمہوریت اور آمریت دونوں سگی بہنیں ، جمہوریت اور آمریت دونوں سگی بہنیں

مزید تجزیئے ، فیچرز ، کالمز ، بلاگز،رپورٹس اور تبصرے ( == پڑھیں == )

A.R.Haider

شعبہ صحافت سے عرصہ 25 سال سے وابستہ ہیں، متعدد قومی اخبارات سے مسلک رہے ہیں، اور جرنل ٹیلی نیٹ ورک کی اردو سروس جتن نیوز اردو کی ٹیم کے بھی اہم رکن ہیں۔ جتن انتظامیہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d bloggers like this: