تازہ ترینتعلیمکالمز،بلاگز، فیچرز

جامعہ گومل کا مستقبل عدالتی حکم سے وابستہ

Facebooktwitterpinterestlinkedinrssyoutubetumblrinstagramby feather

جامعہ گومل کا مستقبل عدالتی حکم

خیبر پختونخوا کی دوسری بڑی قدیم تاریخی مادر علمی جامعہ گومل ڈیرہ اسماعیل خان اسقدر مالی بحران سے دوچار ہے کہ تنخواہیں دے پا رہی ہے نہ ہی گریجویٹی اور پنشنوں کی ادائیگیاں کرنے کی قوت رکھتی ہے۔

سرکاری ملازمین اور پنشنرز آئے روز احتجاج کر رہے ہیں کہ 2020 میں کورونا کے باعث نصف تنخواہیں دی گئیں

اور تب کے بقایاجات تاحال واجب الادا ہیں۔ گزشتہ چار ماہ سے تنخواہیں بند ہیں۔

پنشنروں کو 2015 سے گریجویٹیاں نہیں ملیں اور اب کئی ماہ سے ماہوار پنشن بھی نہیں دی جا رہی۔

اس پر مستزاد یہ کہ زرعی یونیورسٹی کے قیام کی خاطر جامعہ گومل کو خیبر پختونخوا یونیورسٹیز ایکٹ 2012 کے منافی تقسیم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

پڑھیں : جامعہ گومل کا بہیمانہ و سنگ دلانہ قتل

زرعی یونیورسٹی کے قیام کا اعلان 2017 میں مولانا فضل الرحمن کے

مطالبے پر سابق وزیر نواز شریف نے دورہ ڈیرہ کے موقع پر سپاس نامے کے جواب میں کیا تھا،

جسے عملی جامہ پہنانے سے قبل میاں صاحب کی وزارت عظمی ہی نہ رہی، اور 2018 کے الیکشن

میں پی ٹی آئی وفاق میں برسر اقتدار آ گئی، جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی دوبارہ حکومت بنانے

میں کامیاب ہو گئی۔

ابتدا میں تو پی ٹی آئی کی حکومت زرعی یونیورسٹی کے قیام کے لیے دلچسپی نہیں لے رہی تھی

مگر گزشتہ برس سے اسقدر متحرک و فعال ہے جیسے ڈیرہ کے سارے مسائل کا حل زرعی یونیورسٹی کے قیام میں ہے،

چاہے اس کے لیے جامعہ گومل بند ہو جائے۔

چنانچہ سابق گورنر و چانسلر شاہ فرمان نے وی سی پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد

کو دو بار جبری رخصت پر بھیجا اور موجودہ قائم مقام گورنر و چانسلر مشتاق غنی نے

بھی وہی روایت دہرائی ہے صرف اس لیے کہ وہ یونیورسٹی ایکٹ کے برعکس

جامعہ گومل کے شعبہ جات، جائیداد، طلبہ اور وسائل کی زرعی یونیورسٹی کو منتقلی کے خلاف ہیں۔

مزید پڑھیں : زرعی یونیورسٹی بناو مگر جامعہ گومل بچاو

عجیب بات یہ کہ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مسرور الہی بابر

کو اضافی ذمہ داری سونپ دی گئی اور موصوف نے ازخود اثاثے دے دیے اور لے لیے۔

تاہم عدالت عالیہ پشاور کے سرکٹ بنچ ڈیرہ نے معروف قانون دان احمد علی خان

کی رٹ پٹشین پر قائم مقام گورنر چانسلر اور وی سی کے اقدامات غیر قانونی قرار دے کر جامعہ

کے وائس چانسلر کی تقرری کے احکامات جاری کر دیے، لہذا ڈین آف فیکلٹی پروفیسر ڈاکٹر شکیب

اللہ کو پرو وائس چانسلر مقرر کر دیا گیا ورنہ چند روز قبل تک جامعہ گومل بغیر سربراہ کے چل رہی تھی۔

پرووائس چانسلر نے عہدہ سنبھال کر اپنی ذمہ داریاں نبھانے کا آغاز کردیا

اور ملازمین و پنشنروں کو بھی اطمینان دلوا دیا ہے۔ خدا کرے انکی جدوجہد رنگ لائے

اور جامعہ گومل مالی بحران سے نکلنے میں کامیاب ہو لیکن جامعہ گومل کی سلامتی و بقا کا معاملہ انتہائی اہم،حساس اور بنیادی ہے۔

سارا دارومدار عدالتی فیصلے اور اس پر عملدرآمد میں ہے۔

یہ بھی پڑھیں : جامعہ گومل ڈی آئی خان کی ہچکولے کھاتی کشتی

قبل ازیں جامعہ گومل کے باختیار ادارے سنڈیکیٹ اور عدالت عالیہ کے فیصلوں کی خوب دھجیاں اڑائی گئیں۔

اگر توہین عدالت کا مقدمہ نہیں بنایا جاتا تو قانون شکن اور عدالتی فیصلوں

سے منحرف ہونے والے حکام اپنی روایت دہرانے کی کوشش کریں گے،

لہٰذا زرعی یونیورسٹی الگ قائم کرنے اور اس کے لیے اراضی و وسائل کی فراہمی ناگزیر ہے،

تاکہ بحران ذدہ جامعہ گومل کی سلامتی و بقا خطرے سے باہر نکل سکے۔

جامعہ گومل کی بقا و سلامتی اور مستقبل عدالتی فیصلے سے وابستہ ہے۔

امید ہے کہ عدالت عالیہ قدیم تاریخی مادر علمی کا تحفظ یقینی بنائے گی۔

قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں،
مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ
جتن نیوز اردو انتظامیہ

جامعہ گومل کا مستقبل عدالتی حکم ، جامعہ گومل کا مستقبل عدالتی حکم ، جامعہ گومل کا مستقبل عدالتی حکم

مزید تجزیئے ، فیچرز ، کالمز ، بلاگز،رپورٹس اور تبصرے ( == پڑھیں == )

About Author

Facebooktwitterpinterestlinkedinrssyoutubetumblrinstagramby feather
Facebooktwitterredditpinterestlinkedintumblrmailby feather

Imran Rasheed

عمران رشید خان صوبہ خیبر پختونخوا کے سینئر صحافی اور سٹوری رائٹر/تجزیہ کار ہیں۔ کرائمز ، تحقیقاتی رپورٹنگ ، افغان امور اور سماجی مسائل پر کافی عبور رکھتے ہیں ، اس وقت جے ٹی این پی کے اردو کیساتھ بحیثیت بیورو چیف خیبر پختونخوا فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ ادارہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے