جامعہ گومل ڈیرہ اسماعیل خان کی ہچکولے کھاتی کشتی (حصہ آخر)

گذشتہ سے پیوستہ : جامعہ گومل ڈیرہ اسماعیل خان

طلبہ کےحالیہ احتجاجی مظاہرے وی سی صاحب کی غلطی کا شاخسانہ ہیں۔

بعض سابق طلبہ نہ صرف اپنا غم و غصہ نکال رہے ہیں۔

بلکہ واضح ہو چکا ہے کہ وہ سابق وفاقی وزیر علی امین اور سابق ڈائریکٹر ایڈمن دل نواز کی ہدایات پر عمل کر رہے ہیں۔

جو کہ دونوں شخصیات نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر چلنے والے پیغامات میں تسلیم بھی کر لیا ہے۔

طلبہ کے مسائل اور ان کی مشکلات کا حل جامعہ کی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔

رہائش، خوراک، بجلی، ٹرانسپورٹ، پانی، تعلیم اور لائبریری سمیت دیگر مسائل و مشکلات دور کرنا انتظامیہ کا اولین فرض ہے اور نہ کی جائیں تو پرامن احتجاج کرنا طلبہ کا حق ہے۔

پڑھیں : جامعہ گومل ڈی آئی خان کی ہچکولے کھاتی کشتی ( حصہ اول )

وی سی صاحب کو طلبہ کی فریاد سننا بھی چاہیے اور فریاد رسی بھی کرنا چاہیے۔

البتہ اگر نظم و ضبط کی خلاف ورزی ہو رہی ہو تو قانون شکن طلبہ کیخلاف کارروائی کی جانی چاہئے۔

یونیورسٹی بند، ہاسٹل خالی اور سہولیات روک دینا مسائل کا حل نہیں۔

بیرونی افراد کا یونیورسٹی میں داخل ہونا، ہاسٹلوں میں رہنا،

موسم گرما میں اے سی اور سرما میں ہیٹر استعمال کرنا اگر جرم ہے تو جامعہ کی سکیورٹی فورس کس مرض کی دوا ہے؟

بھاری تنخواہیں اور مراعات کیوں دی جا رہی ہیں؟

اگر سیکیورٹی افسر اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر سکتے تو انہیں چھٹی دے دی جائے۔

مادر علمی وی سی کی ملکیت نہیں، عداوت کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے

حیرت ہے غیر متعلقہ عناصر مادر علمی کا تقدس پامال کر رہے ہوں اور پولیس طلب کرنا پڑے جو صرف مظاہرین کی نگرانی کر رہی ہو۔

سابق وفاقی وزیر علی امین اور سابق ڈائریکٹر ایڈمن دل نواز کو فارغ التحصیل اور سیاسی جماعتوں سے وابستہ طلبہ کو مشتعل کرنے، انہیں شہہ دینے، ان کی سرپرستی اور مدد و معاونت کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

مادر علمی وی سی صاحب کی ذاتی ملکیت یا ان کی جائیداد نہیں جسے ان کی عداوت و دشمنی میں تباہ کرنے کی کوشش کی جائے۔

وہ اگر علی امین کی خواہش پر گومل یونیورسٹی کی قیمت پر زرعی یونیورسٹی کے قیام کی راہ میں رکاوٹ ہیں تو یہ ان کا فرض ہے۔

زرعی یونیورسٹی ہی کیا انجنیئرنگ، میڈیکل اور خواتین یونیورسٹیاں بھی قائم کی جائیں،

لیکن الگ سے۔ ان کی اراضی، عمارتیں، عملہ اور وسائل حکومت فراہم کرے۔

جامعہ گومل کا سب کچھ لے کر زرعی یونیورسٹی بنانا ناقابل فہم

گومل یونیورسٹی سے کچھ لینا ہے تو اس کیساتھ قانون کے مطابق معاہدہ کر لیجیے،

مگر سب کچھ اس سے لے کر زرعی یونیورسٹی یا کوئی اور ادارہ تشکیل دینا ناقابل فہم ہے۔

وی سی صاحب اگر مادر علمی کی حفاظت کر رہے ہیں تو وہ داد و تحسین کے مستحق ہیں۔

اہل ڈیرہ، مقامی انتظامیہ، جامعہ کے تدریسی و انتظامی عملے اور یونیورسٹی کے خیر خواہوں کو وی سی صاحب کا ساتھ دینا چاہیے۔

کسی مکان کے بیچ میں دیوار کھڑی کر کے یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ دوسرا مکان تعمیر کر دیا گیا ہے۔

گومل یونیورسٹی کے ہر قسم کے اثاثے اس کے اپنے ہیں۔ چھین کر کسی اور ادارے کے سپرد کرنا درست نہیں۔

یہ بھی پڑھیں : ہم الٹے بات الٹی یار الٹا ——،

افسوس کہ سابق گورنر و چانسلر شاہ فرمان نے بھی قانون کیخلاف عمل کرنا چاہا۔

صوبائی کابینہ نے بھی غیر قانونی فیصلہ کیا۔

عدالت عالیہ نے اثاثوں کی تقسیم کیخلاف حکم نامہ جاری کیا،

مادر علمی کے باختیار ادارے سنڈیکیٹ نے بھی اثاثوں کی تقسیم مسترد کر دی،

وی سی صاحب کو کون سا اختیار حاصل ہے کہ وہ زرعی یونیورسٹی کے قیام کی خاطر گومل یونیورسٹی کا جنازہ نکال دیں؟

بحرانوں میں مبتلا مادر علمی کو کنگال کر کے زرعی یونیورسٹی قائم کرنا اخلاص کا ثبوت نہیں،

یہ ثابت ہو رہا ہے کہ وی سی کیساتھ ذاتی مخاصمت و تصادم کر کے

ادھ موی گومل یونیورسٹی کی تجہیز و تکفین اور تدفین کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔

جاری لڑائی میں ڈاکٹرافتخار احمد کو نہیں جامعہ کو نقصان ہوگا

ڈاکٹر افتخار احمد اگر علی امین اور دل نواز کے ذاتی غم و غصے کی بھینٹ چڑھ بھی گئے تو ان کا کوئی نقصان نہیں ہو گا۔

وہ کسی اور ادارے میں جا کر نوکری کر لیں گے، تاہم تاریخی مادر علمی جامعہ گومل دم توڑ جائے گی۔

زرعی یونیورسٹی کی آج نہیں کل بھی اشد ضرورت تھی جسے محسوس نہیں کیا گیا۔

پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو بھی نو برس بیت گئے ہیں۔

علی امین پانچ سال صوبائی وزیر اور ساڑھے تین برس وفاقی وزیر رہے۔ تاحال قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔

وہ گومل یونیورسٹی کے لیے کچھ کر سکے نہ زرعی یونیورسٹی کیلئے اراضی اور وسائل کا انتظام کروا سکے۔

زرعی تحقیقاتی ادارہ کیا اس قابل نہیں کہ وہاں زرعی یونیورسٹی بنا دی جائے؟

اس میں کسی وی سی کا نہیں ان کا اپنا قصور ہے۔

صرف زرعی نہیں دیگر جامعات بھی بننی چاہیں لیکن اپنے وسائل کیساتھ

تعجب خیز معاملہ ہے کہ گومل یونیورسٹی کی جائیدادیں، اثاثے، رقوم، طلبہ سب کچھ زرعی یونیورسٹی لے اڑے،

عملہ وہیں رہے جبکہ زرعی یونیورسٹی میں سیکڑوں نئی بھرتیاں کی جائیں۔

سیاست اور سیاسی بھرتیوں نے ہی تو گومل یونیورسٹی کو موجودہ صورتحال تک پہنچایا ہے۔

اگر اس کا گلا دبایا جائے گا تو سوال یہ بھی ہے کہ ایک ادارہ پہلے ہی آخری سانسیں لے رہا ہے کیا وہ بچ پائے گا،

ضرورت اس امر کی ہے ہوش کے ناخن لئے جائیں ، تعلیمی درسگاہ کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے،

سیاست برائے تعلیم کی جائے یعنی زرعی یونیورسٹی کے قیام کو عملی جامہ پہنانے کیلئے صوبائی حکومت اپنی ذمہ داریاں کما حقہ ہو انجام دے۔

قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں،
مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ
جتن نیوز اردو انتظامیہ

جامعہ گومل ڈیرہ اسماعیل خان ، جامعہ گومل ڈیرہ اسماعیل خان ، جامعہ گومل ڈیرہ اسماعیل خان ، جامعہ گومل ڈیرہ اسماعیل خان

مزید تجزیئے ، فیچرز ، کالمز ، بلاگز،رپورٹس اور تبصرے ( == پڑھیں == )

Imran Rasheed

عمران رشید خان صوبہ خیبر پختونخوا کے سینئر صحافی اور سٹوری رائٹر/تجزیہ کار ہیں۔ کرائمز ، تحقیقاتی رپورٹنگ ، افغان امور اور سماجی مسائل پر کافی عبور رکھتے ہیں ، اس وقت جے ٹی این پی کے اردو کیساتھ بحیثیت بیورو چیف خیبر پختونخوا فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ ادارہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d bloggers like this: