پاکستانتازہ ترینکالمز،بلاگز، فیچرز

تصویر کے دُونوں رُخ دیکھیئے۔۔۔ ۔۔۔ (حصہ آخر)

Facebooktwitterpinterestlinkedinrssyoutubetumblrinstagramby feather

تصویر کے دُونوں رُخ دیکھیئے۔۔۔

قارئین … ! گذشتہ سے پیوستہ لکھی گئی سابق اقساط کا لب لباب یہ نکلا کہ پاکستان کی سیاست میں موقف، نقطہ نظر، جماعتیں، افکارات و نظریات بدل لینا قدیم روایت ہے، البتہ کوئی نیا موقف، نقطہ نظر، فکر و سوچ، نظریہ اور جماعت اپنا کر اس پر ڈٹ گیا۔ جیسے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ، علامہ محمد اقبال ؒ، ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور دیگر ایسے سیاستدان جو اچھے تھے، ہیں یا بُرے تھے یا ہیں۔ بہرحال لڑھکتے نہیں پھرے یا نہیں لڑھک رہے۔ لوٹے اشاروں پر ناچ ناچ کر اقتدار میں شریک ہوتے رہے اور فوائد حاصل کرتے رہے مگر عزت و تکریم سے محروم رہے البتہ ہر بڑی جماعت اور اس کی قیادت نے لوٹوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنائی اور پھر انہی کے لڑھکنے کے سبب اقتدار کے ایوانوں سے نکلنا پڑا۔

پڑھیں : تصویر کے دونوں رخ دیکھیئے۔۔۔ ۔ ۔۔۔ (حصہ ہشتم)

لوٹے مفادات کے غلام ہیں جو اقتدار میں شرکت یقینی بنانے کیلئے اشاروں کے منتظر رہتے اور حکم ملتے ہی معزول ہونیوالی جماعت و قیادت کو چھوڑ کر ممکنہ مقتدر جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں۔

یہ لوگ مارشلاوں میں طالع آزماؤں کی کٹھ پتلیاں بن کر کردار ادا کرتے ہیں۔

اپنے سرپرستوں کی شفقت و محبت کے باعث جمہوری حکومتوں میں بھی شریک اقتدار ہوتے ہیں۔

نانی مرے چاہے دادی یہ حلوہ کھانے کیلئے تیار رہتے ہیں۔

سب سے اہم اور آخری بات یہ ہے بانی پاکستان، بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کسمپرسی کی حالت میں بے آسرا فٹ پاتھ پر دم توڑ گئے۔

ان کی ہمدردی میں محترمہ فاطمہ جناح ؒ کے علاوہ کوئی آواز بلند نہیں ہوئی۔

کسی نے واویلا نہیں کیا۔ کوئی احتجاج نہیں ہوا، حالانکہ پاکستان کے قیام کو صرف ایک برس بیتا تھا۔

اس وقت تک آذادی حاصل کرنے والی قوم جوان اور زندہ تھی۔

لیاقت علی خان کو گولی مار دی گئی اور سید اکبر خان کو حملہ آور قرار دے کر موقع پر معاملہ دبا دیا گیا۔

کسی نے احتجاج نہیں کیا۔ کوئی سڑکوں پر نہیں نکلا۔

پڑھیں : تصویر کے دُونوں رُخ دیکھیئے۔۔ ۔ ۔۔ (حصہ ہفتم)

محترمہ فاطمہ جناح ؒ کو ’’ را ‘‘ کی ایجنٹ اور غدار قرار د ے دیا گیا۔

ان کی موت معمہ بن گئی مگر مادر ملت کے لیے بھی احتجاج ہوا نہ ہی کسی نے آواز اٹھائی۔

جنرل ایوب کو گالیاں دے کر رخصت کیا، پھر ٹرکوں پر انکی تصویر بنا کر لکھ دیا گیا ” تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد”۔

ذوالفقار علی بھٹو نے عوام میں بے پناہ شہرت و مقبولیت پائی۔

جنرل ضیا الحق نے امریکی ایما اور ذاتی رنجش و خوف کی بنیاد پر ان کا عدالتی قتل کر دیا۔

تب بھی چند جیالے نکلے۔ کمزور سا احتجاج ہوا۔

نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو نے قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔

قوم خاموش رہی۔ بڑے بڑے برج پارٹی چھوڑ گئے۔

کوئی سیاست سے الگ ہو گیا، کسی نے کسی اور جماعت میں شمولیت اختیار کر لی،

کسی نے اپنی تنظیم تشکیل دے دی۔ بہت سے لوگوں نے مٹھائیاں بانٹیں۔ مارشل لا کا خیر مقدم کیا۔

محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت دو مرتبہ ختم کی گئی۔ کسی نے احتجاج نہیں کیا۔

پڑھیں : تصویر کے دُونوں رُخ دیکھیئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (حصہ ششم)

2007 میں انہیں دہشت گردانہ حملے میں لقمہ اجل بنا دیا گیا، تب سندھیوں نے ” پاکستان نہ کھپے کا نعرہ لگایا "،

مگر آصف علی زرداری نے ” پاکستان کھپے” کا نعرہ لگا کر ان کی آواز دبا دی۔

میاں محمد نوازشریف کو تین مرتبہ وزارت عظمیٰ کی کرسی سے محروم کیا گیا۔

قید رکھا گیا لیکن کوئی ایسا احتجاج نہیں ہوا جو ان کی رہائی اور حکومت کی بحالی کی وجہ بنتا۔

پی پی پی کی حکومت آتی تو مٹھائیاں بٹتیں، جب حکومت ختم ہوتی تو بھی مٹھائیاں تقسیم ہوتیں۔

مسلم لیگ ن کی حکومت آتی تو خوشیاں منائی جاتیں۔

اس کی حکومت جاتی تب بھی شادیانے بجائے جاتے۔

مارشلا نافذ ہوتا تو لوگ رقصاں ہوتے۔

مارشل لا ختم ہوتا تو پھر بھی اظہار مسرت کیا جاتا۔

قوم ہر موقع پر سوگ منانے اور ہر موقع پر جشن منانے کے لیے آمادہ نظر آئی۔

پڑھیں : تصویر کے دُونوں رُخ دیکھیئے ۔۔۔۔۔ (حصہ پنجم)

پس یہ عمران خان کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ آپ کی خاطر گنتی کے چند سر پھرے افراد قربانی دے سکتے،

آپ کے ساتھ ڈٹ سکتے اور چل سکتے ہیں۔

9 مئی کو آپ کی گرفتاری پر جو جوش و جذبہ دیکھا گیا وہ جھاگ کی مانند اُبھرا،

پھر ایسے بیٹھا کہ عام کارکن، ہم درد اور ووٹر تو ہم قدم ہے،

تاہم بیشتر عظیم المرتبت و جاں نثار دست و بازو ایسے لاپتہ ہو چکے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔

9 مئی کو پاکستان جل رہا تھا۔

دو تین روز دھواں اٹھتا رہا اور پھر آئی ایس پی آر کا بیان آ گیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلائے جائیں گے۔

گرد و غبار بیٹھتے اور بادل چھٹتے ہی ایسا لگا سبھی نے چپ کا روزہ رکھ لیا ہے۔

اگر اب بھی عمران خان کسی غلط فہمی کا شکار یا خوش فہمی میں مبتلا ہیں تو پھر خدا ہی حافظ ہے۔

فی الوقت وہ تنہا رہ چکے اور ان کی جماعت تانگے میں سمٹ چکی ہے۔

انقلابی رہنما راہ فرار اختیار کر چکے ہیں۔ کارکنان خاموش ہو چکے ہیں۔

پڑھیں : تصویر کا دُوسرا رُخ بھی دیکھیئے ۔۔۔۔۔ (حصہ چہارم)

خون دینے کا دعویٰ کرنیوالے پسینہ بہانے سے اور جیلیں بھرنے والے حوالاتوں میں ایک رات گزارنے سے بھی گریزاں ہیں۔

ریاست مدینہ کا قیام، افکارات و نظریات کا نفاذ اور انقلاب جلسے جلوسوں میں موسیقی سنوانے، نغمے چلانے اور رقص کرنے سے ہرگز ممکن نہیں۔

ڈھول کی تھاپ پر ناچنے اور گانوں پر جھومنے والے ریاست مدینہ کے قیام،

افکارات و نظریات نافذ کرنے اور انقلاب لانے کیلئے معمولی سی بھی قربانی نہیں دے سکتے

نہ ہی آپ خود ان کے لیے مثال بن سکتے ہیں۔

اگر آپ قید و بند اور نااہلی سے بچ رہتے ہیں۔

سیاست کرنے اور الیکشن لڑنے کی اجازت مل جاتی ہے تو اپنا طرز سیاست تبدیل کر لیجیے۔

رویہ بدل لیجیے اور خود کو ایسا رہبر و رہنما تصور کرنا ترک کر دیجیے کہ قوم آپ کے ساتھ

اور آپ پر مر مٹنے کے لیے تیار ہے۔ پہلے ایسا ہوا ہے نہ ہی ہو سکے گا۔

قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں،
مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ
جتن نیوز اردو انتظامیہ

تصویر کے دُونوں رُخ دیکھیئے۔۔۔ , تصویر کے دُونوں رُخ دیکھیئے۔۔۔ , تصویر کے دُونوں رُخ دیکھیئے۔۔۔ , تصویر کے دُونوں رُخ دیکھیئے۔۔۔ , تصویر کے دُونوں رُخ دیکھیئے۔۔۔ , تصویر کے دُونوں رُخ دیکھیئے۔۔۔ , تصویر کے دُونوں رُخ دیکھیئے۔۔۔

مزید تجزیئے ، فیچرز ، کالمز ، بلاگز،رپورٹس اور تبصرے ( == پڑھیں == )

About Author

Facebooktwitterpinterestlinkedinrssyoutubetumblrinstagramby feather
Facebooktwitterredditpinterestlinkedintumblrmailby feather

Imran Rasheed

عمران رشید خان صوبہ خیبر پختونخوا کے سینئر صحافی اور سٹوری رائٹر/تجزیہ کار ہیں۔ کرائمز ، تحقیقاتی رپورٹنگ ، افغان امور اور سماجی مسائل پر کافی عبور رکھتے ہیں ، اس وقت جے ٹی این پی کے اردو کیساتھ بحیثیت بیورو چیف خیبر پختونخوا فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ ادارہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے