تحریک عدم اعتماد پرآئین کے تحت عمل ہونا چاہیے، سپریم کورٹ
اسلام آباد (جے ٹی این پی کے) تحریک عدم اعتماد آئین کے تحت
سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر سیاسی جماعتوں کے درمیان متوقع تصادم کو روکنے کیلئے سپریم کورٹ بار کونسل کی درخواست پر تمام پارلیمانی جماعتوں کو نوٹس جاری کردئیے ہیں.
جبکہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تحریک عدم اعتماد پرآئین کے تحت عمل ہونا چا ہیے.
اور اس میں عدالت کی کوئی دلچسپی نہیں ،
پارلیمنٹ اورپارلیمنٹرینز کا احترام کرتے ہیں،
عدالت کا پلیٹ فارم کسی فریق کو صورت حال خراب کرنے کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینگے،
عدالت قانونی سوالات کا آئین کے تحت جواب دیگی،
پبلک پراپرٹی اور قومی اداروں کو دھمکیاں ملیں، ارکان اور اداروں کو تحفظ آئین کے مطابق ملنا چاہیے۔
ہفتہ کو سپریم کو ر ٹ کی کاز لسٹ کے مطابق چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل دو رکنی بینچ نے دوپہر ڈیڑھ بجے مقدمے کی سماعت شروع کی۔
دوران سماعت اٹارنی جنر ل خالد جاوید اور آئی جی اسلام آباد کیساتھ ساتھ سپریم کورٹ بار کے وکیل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل صاحب سپریم کورٹ بار نے عدالت سے رجوع کیا ہے،
بار ایسوسی ایشن چاہتی ہے قانون پر عملدرآمد کیا جائے،
آپ بھی عدالت سے رجوع کرنا چاہتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا آرٹیکل 63 اے پر پیر تک صدرتی ریفر نس دائر کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا بار امن عامہ اور آرٹیکل 95 کی عملداری چاہتی ہے،
یہ از خود کارروائی نہیں ، ہمارے پاس درخواست پہلے آ چکی ہے۔
انہوں نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا آزادی رائے اور احتجاج کے حق پر کیا کہیں گے؟
گزشتہ روز والے واقعہ پر کیا کہیں گے؟
یہ واقعہ آزادی رائے اور احتجاج کیخلاف تھا ۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا قانون کی خلاف ورزی کا کوئی جواز نہیں اور میں واقعے کا پس منظر بتانا چاہتا ہوں،
آئی جی اسلام آباد اور ایڈ یشنل سیکرٹری داخلہ بھی موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا امید کرتے ہیں تمام سیاسی فریقین تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔
چیف جسٹس، آرٹیکل 63۔اے پر رائے نہیں دینا چاہتے اور اس پر صدارتی ر یفرنس پر درخواست کی سما عت کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے اس پر کہا صدارتی ریفرنس کے معاملے پر سپریم کورٹ بار کی درخواست کا تعلق نہیں ،
جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا دونوں معاملات کا آپس میں لنک موجود ہے،
سپریم کورٹ بار کی درخواست میں سپیکر کی ذمہ داریوں کی بات کی گئی ہے۔
اٹارنی جنرل نے بتایا احتجاج کرنیوالے 100افراد کو پولیس نے سندھ ہاؤس سے منتشر کیا،
اس کے بعد 20 لوگ سندھ ہاؤس احتجاج کرنے آگئے،
13 لوگوں کو سندھ ہاؤس پر حملہ کرنے پر گرفتار کیا،
تھانہ سیکریٹریٹ میں مقدمہ درج کر لیا گیا اور مجسٹریٹ نے 13 مظاہرین کو رہا کر دیا۔
چیف جسٹس نے کہا جو کچھ ہو رہا ہے ہمیں اس سے مطلب نہیں،
ہم یہاں آئین کی عملداری کیلئے بیٹھے ہیں، کیا عوامی املاک پر دھاوا بولنا بھی قابل ضمانت جر م ہے،
سیاسی عمل آئین و قانون کے تحت ہونا چاہیے۔ پبلک پراپرٹی اور قومی اداروں کو دھمکیاں ملیں،
ارکان اور اداروں کو تحفظ آئین کے مطابق ملنا چاہیے۔
تحریک عدم اعتماد آئین کے تحت