تاریخ رقم کرنا آسان، ہدف تسلسل کیساتھ برقرار رکھنا ہونا چاہیے
تاریخ رقم کرنا آسان، ہدف تسلسل کیساتھ برقرار رکھنا ہونا چاہیے
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالتے ہی جہاں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کیلئے فُل کورٹ بینچ بنانے اور کیس کو سماعت کیلئے مقرر کرکے وطن عزیز کی اعلیٰ عدلیہ میں ایک نئی مثال قائم کی وہیں جب وہ بحثیت چیف جسٹس پاکستان پہلے روز سپریم کورٹ تشریف لائے تو استقبال کیلئے موجود عدالتی عملے کو نصیحت کی کہ لوگ یہاں خوشی سے نہیں آتے، آپ میزبان بن کر جہاں تک ممکن ہو سکے اُن کی مدد کریں۔ انصاف کے دروازے کھلے رکھیں، جلد ہی آپ لوگوں سے تفصیلی ملاقات کرونگا۔
فل کورٹ بینچ، پریکٹس اینڈ پرو سیجر ایکٹ کیس
بعدازاں چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی سربراہی میں جسٹس طارق
مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علیشاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی،
جسٹس امین الدین خان، جسٹس مظاہر علی نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد
علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد
وحید، جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل فُل بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت شروع کر دی۔
سماعت کا براہ راست نشر کرنا تاریخی اقدام
وطن عزیز کی تاریخ میں یہ بھی پہلی بار ہوا کسی کیس کی سماعت براہ راست ٹیلی ویژن پر نشر کی گئی ہے۔
یہ نہایت دلیرانہ، دانشمندانہ اور تاریخی فیصلہ تھا، جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔
کیا ہی اچھا ہوتا اگر تمام کارروائی اردو میں ہوتی تاکہ عام آدمی بھی جان سکتا یہ اہم مقدمہ
جسے پاکستان اعلیٰ ترین عدلیہ میں ” ٹرننگ پوائنٹ “ قرار دیا جا رہا ہے، کی تفصیلات کیا ہیں؟۔
فریقین کے وکلاء کیا آئینی و قانونی نکات اُٹھا رہے ہیں؟۔
یہ تو واضح ہے کہ کیس کی کارروائی براہ راست نشر کرنے کے مستقبل میں واضح اثرات نظر آئیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان کا عدلیہ کی ماضی میں کی گئی سنگین غلطیوں کا برملا اعتراف
سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ کی جانب سے ماضی میں کی گئی سنگین غلطیوں کا برملا اعتراف کیا۔
ریکوڈک اور ذوالفقار علی بھٹو کیس خصوصی ذکر کرتے ہوئے کہا ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری اناء بہت بڑی ہو گئی ہے۔
ہر وقت پارلیمنٹ پر تنقید ضروری نہیں،
جج عوام کے پیسوں سے تنخواہ لیتے ہیں تو ذمہ داریاں بھی پوری کریں۔
57 ہزار کیس زیرِ التواء ہیں، اگر یہ کیس ایک ماہ بھی چلا تو مقدمات کا بوجھ مزید بڑھ جائیگا۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے نقصانات پر چیف جسٹس کے سوالات
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سوالات اُٹھائے درخواست گزار بتائے اِس قانون سازی سے کس کو نقصان ہوا؟
عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہوئی؟
عدلیہ کی آزادی کیسے متاثر ہوئی؟
دورانِ سماعت معزز جج صاحبان نے درخواست گزاروں اور اٹارنی جنرل سے آئینی و قانونی پہلوﺅں پر کئی سوالات کئے۔
کئی گھنٹے کی براہ راست کارروائی کے بعد چیف جسٹس نے کہا خواہش تو آج ہی کیس نمٹانے کی تھی لیکن ایسا ممکن نہیں نہیں آ رہا،
چیف جسٹس کی ساتھی ججز کیساتھ مشاورت سے فیصلہ کرنے کی روش
بعد ازاں انہوں نے دو سینئر ترین ججوں کی رائے سے کیس کی سماعت 3 اکتوبر تک موخر،
درخواست گزاروں کو 25 ستمبر تک جامع اور مختصر جواب جمع کرنے کی ہدایت کر دی۔
یاد رہے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کئی ماہ قبل موقف اختیار کیا کہ جب تک سپریم کورٹ
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا فیصلہ نہیں کیا جاتا وہ کسی بینچ کا حصہ نہیں بنیں گے۔
اُنہوں نے اِس بات کا اظہار ملٹری کورٹ سے متعلق کیس کے بینچ سے علیحدہ ہوتے ہوئے بھی کیا تھا۔
واضح رہے سابق چیف جسٹس عطا محمد بندیال کی سربراہی میں آٹھ رکنی بینچ نے اِس بِل پر حُکمِ امتناع دیا تھا۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان کا موقف
سماعت باضابطہ طور پر شروع ہونے سے پہلے وفاقی حکومت جس کی نمائندگی اٹارنی جنرل برائے پاکستان منصور عثمان اعوان نے کی، سپریم کورٹ پر زور دیا کہ وہ اس قانون کو چیلنج کرنیوالی درخواستوں کو خارج کرے۔
حکومت کا موقف تھا درخواستیں ناقابل سماعت ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے روسٹرم پر وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ کچھ ججز نے اس معاملے کو پہلے سنا تھا،
جبکہ دیگر کا پہلی بار سامنا تھا۔
انہوں نے فل کورٹ کی تشکیل کے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ایک سوال اٹھایا گیا کہ کیا مجھے بنچ کا حصہ ہونا چاہیے؟
اور پھر اس سے متعلقہ سوال پوچھا گیا کہ جو لوگ چیف جسٹس بنیں گے وہ بنچ کا حصہ بنیں؟
میرے خیال میں اسے حل کرنے کا بہترین طریقہ ایک مکمل عدالت کا قیام تھا۔
ایڈووکیٹ خواجہ طارق رحیم کے دلائل
کیس میں دلائل کا آغاز ایڈووکیٹ خواجہ طارق رحیم کے روسٹرم اٹھانے سے ہوا۔
جسٹس عائشہ ملک نے قانون برقرار رکھنے کی صورت میں قانون کے سیکشن 5 کے تحت فراہم کردہ اپیل کے حق پر تنقیدی سوال اٹھایا۔
رحیم نے قانون کو بلند آواز میں پڑھتے ہوئے توجہ برقرار رکھنے کیلئے جدوجہد کی،
جج صاحبان نے اسے جاری رکھنے کیلئے بار بار حوصلہ افزائی کی۔
رحیم نے ادارے کے دائرہ کار کو پارلیمانی مداخلت سے بچانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے قواعد وضع کرنے میں سپریم کورٹ کے استحقاق کی نشاندہی کی۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا اظہار تشویش
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ایک دفتر میں دیئے گئے غیر احتسابی اختیارات سے متعلق تشویش کا اظہار کیا،
جس سے کیس کے مرکز میں بنیادی مسائل پر بحث شروع ہوئی۔
کیس کی تاریخ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔
یہ ایکٹ اپنے دور رس اثرات کی وجہ سے وسیع بحث کا موضوع رہا ہے۔
یہ ایکٹ چیف جسٹس کے موجودہ واحد اختیار کو تبدیل، چیف جسٹس سمیت تین رکنی کمیٹی کو ازخود نوٹس لینے اور سپریم کورٹ کے بنچ بنانے کا اختیار دیتا ہے۔
دور رس نتائج کا حامل پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ
یہ بل قومی اسمبلی سے منظور ہوا لیکن صدر ڈاکٹر عارف علوی نے مزاحمت کی۔
بالآخر اسے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے منظور کر لیا اور دوبارہ غور کیلئے صدر کو بھیج دیا۔
سپریم کورٹ نے مداخلت کر کے قانون کو نفاذ سے ایک ہفتہ پہلے ہی روک دیا۔
قانونی ماہرین نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ اس کیس کے فیصلے کے دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں،
ممکنہ طور پر احتساب قانون و عدالتی نظرثانی سے متعلق دیگر اہم مقدمات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
یہ فل کورٹ سیشن آٹھ سالوں میں پہلی بار ہے کہ اس طرح کی عدالت قائم کی گئی ہے،
جس میں معاملے کی سنگینی پر زور دیا گیا ہے۔
ہر پاکستانی اس تاریخی مقدمے کے نتیجے کا منتظر
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فل کورٹ بلانے کا فیصلہ عدلیہ کو متحد کرنے اور اس اہم قانون سازی کی جامع جانچ کو یقینی بنانے کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔
جیسے جیسے سماعت آگے بڑھ رہی ہے، ہر پاکستانی اس تاریخی مقدمے کے نتیجے کا انتظار کر رہا ہے،
یہ ملک میں عدالتی طریقہ کار اور احتساب کے مستقبل کو تشکیل دے سکتا ہے۔
فل کورٹ کے فیصلے کے بلاشبہ دور رس نتائج ہوں گے،
جو اسے حالیہ تاریخ میں سب سے زیادہ قریب سے دیکھی جانیوالی قانونی کارروائیوں میں سے ایک بنا دیگا۔
وطن عزیز کا معاشی بحران اور سیاسی عدم استحکام
تاہم دوسری طرف وطن عزیز میں جہاں ایک طرف معاشی بحران سر اُٹھائے کھڑا ہے وہیں سیاسی عدم استحکام بھی ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔
مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے،
ایسے میں اداروں کے اندر کھینچاتانی نے ایک الگ تنازع پیدا کر رکھا ہے،
جس کے سبب عام آدمی کا اعتماد اداروں پر لڑکھڑا کے رہ گیا ہے۔
لوگ حصول انصاف کی عدالتی جنگ لڑتے لڑتے بوڑھے ہو جاتے ہیں،
بعض اوقات تو دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
سیاسی مفادات و مصلحتوں کی آلودگی اداروں میں سرایت کر چکی ہے۔
خود سپریم کورٹ میں معزز جج صاحبان میں تفریق عیاں رہی ہے۔
فل کورٹ بنانے کے ماضی میں کئے گئے پر زور مطالبات
ماضی میں کئی اہم آئینی مقدمات میں فُل کورٹ بینچ بنانے کے پُر زور مطالبات کے باوجود ایسا نہ کیا جا سکا جس سے عدالت کا وقار متاثر ہوا۔
قاضی فائز عیسیٰ کی آمد کو عدلیہ کے نئے دور کا آغاز قرار دیا جا سکتا ہے۔
اُنہوں نے پہلے روز ہی چند ایسے تاریخی اقدامات کئے ہیں جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔
جیسے گارڈ آف آنر لینے سے انکار، سیکیورٹی اور پروٹوکول کے بغیر اپنی ذاتی گاڑی میں
سپریم کورٹ آنا مراعات یافتہ طبقے کیلئے خاموش پیغام بھی ہے۔
رقم کی گئی تاریخ کو برقرار رکھنے کیلئے ٹھوس اقدامات پر توجہ اصل ہدف
قاضی فائز عیسیٰ کا ماضی جراتمندانہ فیصلوں، جمہوری قوتوں کی حوصلہ افزائی،
آئین کی پاسداری کی روشن مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔
اُمید ہے اِن کے دور میں سپریم کورٹ کا وقار بحال ہو گا۔
نئے چیف جسٹس آف پاکستان نے جو نئی تاریخ رقم کی ہے اُسے قائم رکھنے کیلئے ایسے ٹھوس اقدامات بھی کر کے جائیں گے کہ کوئی انہیں پامال نہیں کر سکے گا۔
قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں،
مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ
جتن نیوز اردو انتظامیہ
تاریخ رقم کرنا آسان، ہدف تسلسل , تاریخ رقم کرنا آسان، ہدف تسلسل , تاریخ رقم کرنا آسان، ہدف تسلسل ,
تاریخ رقم کرنا آسان، ہدف تسلسل تاریخ رقم کرنا آسان، ہدف تسلسل , تاریخ رقم کرنا آسان، ہدف تسلسل ,
تاریخ رقم کرنا آسان، ہدف تسلسل , تاریخ رقم کرنا آسان، ہدف تسلسل تاریخ رقم کرنا آسان، ہدف تسلسل ,
تاریخ رقم کرنا آسان، ہدف تسلسل , تاریخ رقم کرنا آسان، ہدف تسلسل , تاریخ رقم کرنا آسان، ہدف تسلسل
مزید تجزیئے ، فیچرز ، کالمز ، بلاگز،رپورٹس اور تبصرے ( == پڑھیں == )