بیل منڈھے کیسے چڑھے گی؟

بیل منڈھے کیسے چڑھے گی؟

صدر مملکت عارف علوی کی صحافیوں سے گفتگو نے ایک مرتبہ پھر منکشف کر دیا ہے کہ پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ پس پردہ مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ لانگ مارچ سست رفتاری کیساتھ رواں دواں ہے، تاکہ اسلام آباد تک جانے میں طویل وقفہ رہے اور بات چیت کا نتیجہ برآمد ہو سکے۔

اگر مذاکرات نتیجہ خیز ہو گئے تو پی ٹی آئی کا فیصلہ اسی کے مطابق ہو گا،

تاہم امید و توقع نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پی ڈی ایم کو نظر انداز کر کے پی ٹی آئی

کی پیشگی شرطیں مان کر عمران خان کو خوش کر دے اور شرائط کے بغیر

عمران خان نہیں مان رہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ خان صاحب اس اسٹیبلشمنٹ

سے مداوا کروانے کے امیدوار ہیں، جس کے بارے میں وہ کہہ چکے اور دُہرا

رہے ہیں کہ وہ ان کی حکومت گرانے کی سازش میں امریکہ اور اس کے گماشتوں

کیساتھ مل گئی۔ جب کہ انہوں نے ساتھ ہی سپہ سالار کو میر جعفر و میر صادق بھی گردانا۔

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

اگر فیصلے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے کروانے ہیں تو عوامی

جمہوری اقتدار کا قیام ممکن ہی نہیں نہ ہی سیاسی استحکام اور

مضبوطی کی امید رکھنا چاہیے۔ سیاسی قیادتوں کا قبلہ و کعبہ

عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ رہے گی تو پھر کیسا آئین، کون سی جمہوریت اور کس کی سیاست چلے گی؟۔

عمران خان خود ہی اعترافات کر رہے ہیں کہ ہمیں اقتدار دیا گیا اختیار نہیں

اور آئندہ ایسی حکومت نہیں سنبھالیں گے لیکن جو راستہ وہ اپنا رہے ہیں وہ

تو وہی ہے جو بغیر اختیار کے اقتدار کی راہ ہموار کرے گا۔

پڑھیں : شطرنج اور تماشائی !

مکالمہ اسٹیبلشمنٹ کیساتھ نہیں اور فیصلے عدلیہ سے نہیں۔ سیاسی قیادتوں کو خود کرنے ہوں گے۔

ایک دوسرے کو چور، ڈاکو اور لٹیرے کہہ کر باہم مذاکرات سے راہ فرار اختیار کر لینا سیاسی مسائل کا حل نہیں،

بلکہ مزید الجھاو کا باعث ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو ان کا کام

کرنے دیجئے اور آپ اپنا کام خود کیجیے۔ اگر سپہ سالار کی تعیناتی

عمران خان کا مسئلہ نہیں تو بار بار کیوں روتے پیٹتے ہیں کہ نواز شریف،

آصف زرداری اور شہباز شریف اپنی پسند کا سپہ سالار مقرر کرنا چاہتے ہیں۔

سوال یہ ہے کیا جنرل کسی کے ذاتی ملازم ہیں؟

اگر کوئی ہے تو پھر سبھی ہیں صرف ایک تو نہیں ہو سکتا اور

جو بھی سپہ سالار بنایا جائیگا وہ تعینات کرنیوالے کا ہی خیر خواہ

ہو گا لیکن ماضی نے ثابت کیا ہے کہ جسے بہی خواہ تصور کیا گیا اسی نے حکومت کا تختہ الٹا۔

دوسرا سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ۔۔۔۔۔

موجودہ وزیراعظم سپہ سالار کا انتخاب نہیں کرے گا تو پھر کون کرے گا؟

کیا اس کا اختیار عمران خان کو ملنا چاہیے یا ان کی خواہش کے مطابق سپہ سالار متعین کیا جانا چاہیے؟

آئین میں کوئی دوسرا راستہ ہے ہی نہیں۔ البتہ جب عام انتخابات

کا انعقاد ہو جائے اور آپ وزیراعظم منتخب ہوں تو غیر آئینی اور

غیر قانونی تعیناتی ثابت کر کے اسے ہٹا دینا مگر عمران خان جس

خدشے کا اظہار کر رہے ہیں وہی الزام تو 2018 کے الیکشن کے نتائج پر ان کے مخالفین عائد کر چکے ہیں۔

سپہ سالار کو سپہ سالار ہی رہنے دیجیے اور سمجھیے ورنہ

جنرلز کو متنازع بنا کر سپہ سالار کی حیثیت سے تقرری ہمیشہ تنازعات کا ہی شکار رہے گی۔

مزید پڑھیں : چیئرمین پی ٹی آئی سے تین سوالات

پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتوں نے دباو میں آ کر عمران خان

کی شرائط ماننے سے صاف انکار کر دیا اور پاک فوج کیخلاف

ان کی لن ترانیوں پر بغاوت کا مقدمہ قائم کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔

ان کا زخمی ہونا بھی متنازع ہو چکا اور عدالتی کمیشن قائم ہونے جا رہا ہے تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو سکے۔

صوبہ پنجاب نے بھی جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے مگر اس

میں وفاقی اداروں کی نمائندگی نہیں اسلئے اعتبار و اعتماد مشکل ہی کیا جائے گا۔

عمران خان ان کے ساتھیوں اور دیگر لوگوں کے بیانات میں تضادات

نے حملے، گولیاں لگنے اور زخمیوں کی تعداد بھی متنازع بنا دی ہے۔

عدالت عظمی کے حکم پر ایف آئی آر درج ہو چکی مگر عمران خان نے مسترد کر دی۔

تعجب خیز امر یہ ہے کہ وزیراعلی پنجاب چودھری پرویز الہی

بھی عمران خان کی خواہش پر ایف آئی آر کا اندراج کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں : بحرانوں کا ایک ہی حل

اب تو ارشد شریف کا قتل کیس بھی سلجھنے کے بجائے مزید الجھ چکا یے۔

کینیا اور اس کی پولیس کا موقف جبکہ پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کی

رپورٹ اور دیگر لوگوں کے بیانات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

ارشد شریف کو کس نے کیوں اور کیسے شہید کیا؟۔ یہ معمہ فی الوقت ناقابل فہم ہے۔

بہر حال اسٹیلشمنٹ اور عدلیہ کو ملوث رکھا گیا تو سیاسی تنازعات کا حل ممکن ہی نہیں۔

سیاسی قیادتیں باہم مکالمہ کر کے کسی نتیجے پر نہیں پہنچتیں تو صورتحال بدتر ہوتی جائے گی اور ادارے بھی تنقید کی ذد میں رہیں گے۔

قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں،
مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ
جتن نیوز اردو انتظامیہ

بیل منڈھے کیسے چڑھے گی؟ ، بیل منڈھے کیسے چڑھے گی؟ ، بیل منڈھے کیسے چڑھے گی؟ ، بیل منڈھے کیسے چڑھے گی؟ بیل منڈھے کیسے چڑھے گی؟

مزید تجزیئے ، فیچرز ، کالمز ، بلاگز،رپورٹس اور تبصرے ( == پڑھیں == )

Imran Rasheed

عمران رشید خان صوبہ خیبر پختونخوا کے سینئر صحافی اور سٹوری رائٹر/تجزیہ کار ہیں۔ کرائمز ، تحقیقاتی رپورٹنگ ، افغان امور اور سماجی مسائل پر کافی عبور رکھتے ہیں ، اس وقت جے ٹی این پی کے اردو کیساتھ بحیثیت بیورو چیف خیبر پختونخوا فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ ادارہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d bloggers like this: