بحرانوں کا ایک ہی حل

بحرانوں کا ایک ہی حل

وطن عزیز انتہائی مشکل و کٹھن صورتحال سے دوچار ہے۔ اقتصادیات کی ابتری کے باعث اب بیرونی امداد اور قرضوں پر وقت گزاری سے کام نہیں چلے گا۔

زراعت اور برآمدات کو فروغ دے کر اور دیگر اقدامات سے ہی ملکی معاشی مسائل کو کم کیا جا سکتا ہے۔

زرعی شعبہ کی ترقی اور پیداوار ہی درآمدات و برآمدات میں توازن لانے کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔

معیشت مستحکم ہو گی تو روپیہ بھی مضبوط ہو گا ورنہ ڈالر کے مقابلے میں کمزور ہی رہے گا۔

معاشی حالات کی بہتری امن سے جڑی ہوئی ہے اور امن آئین و قانون

پر بلا تفریق و بلا امتیاز اور بلا تعطل عملدرآمد سے منسلک ہے۔ افسوس کہ آئین

شکنی و قانون کی پامالی صرف آمروں کا مشغلہ نہیں رہا بلکہ سیاسی جماعتوں

اور عدلیہ نے بھی ان کا ساتھ دیا، حتی کہ اقتدار میں آنیوالی سیاسی پارٹیوں نے

بھی آئین و قانون کی پاسداری کا حق ادا نہیں کیا، جس کے اثرات و نتائج اور

نقصانات آج بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔

پڑھیں : عمران خان صاحب تین سوال ۔۔

پی ٹی آئی سے پہلے پی پی پی، مسلم لیگ ن اور ان کی اتحادی جماعتوں

کو اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت پر شکوے رہے، مگر جب پی ٹی آئی

کو 2018 میں اقتدار ملا تو شکایتوں میں شدت آ گئی اور اشاروں کنایوں

کیساتھ ساتھ نام لے لے کر بھی پاک فوج کے سپہ سالار اور ذیلی اداروں کے

سربراہوں پر کھل کر نکتہ چینی کی گئی، تب پی ٹی آئی کی حکومت نے پیمرا

کی وساطت سے سیاستدانوں کی کوریج اور بعض نیوز ٹی وی چینلز پر بھی

پابندیاں عائد کیں، جو اظہار رائے کی آزادی کے منافی تھیں۔

اب جبکہ پی ڈی ایم وفاق میں برسر اقتدار ہے تو عمران خان اسی صورت سے گزر رہے ہیں۔

وہ پاک فوج کے سپہ سالار اور ذیلی اداروں کے سربراہوں پر نام نام لے لے کر نکتہ چینی کر رہے ہیں۔

اسی بنیاد پر پیمرا نے ان کی کوریج پر پابندی عائد کی، تاہم وفاقی حکومت نے ہٹا کر احسن اقدام کیا،

کیونکہ آزادئ رائے پر قدغن مسئلے کا حل ہرگز نہیں،

مزید پڑھیں : عمران خان پر حملہ اور عاجلانہ سیاسی موقف

البتہ قانون کے مطابق قابل گرفت گفتگو پر مطلوبہ چارہ جوئی بلا امتیاز ناگزیر ہے۔

اگر کوئی شہری آئین و قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے قانون کے کٹہرے میں ضرور لایا جائے چاہے،

وہ مقتدر، زور آور، مقبول اور سیاستدان ہی کیوں نہ ہو۔

عمران خان پر حملے کے بعد حالات کی سنگینی متقاضی ہے کہ فریقین ہوش کے ناخن لیں۔

وزیراعظم شہباز شریف کی عدالت عظمی سے فل کورٹ کمیشن کی استدعا قابل غور ہے۔

امید ہے کہ تحریری درخواست کے نتیجے میں عدلیہ مذکورہ

تجویز کو عملی جامہ پہنا کر دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دے گی

اور فریقین اس پر اعتبار و اعتماد کریں گے۔ عمران خان کو گولیاں لگنے کا معاملہ بھی متنازع ہو چکا ہے۔

اگر وہ کسی وجہ سے سرکاری ہسپتال نہیں گئے تو متفقہ میڈیکل بورڈ سے

معائنہ کروا لیا جائے اور عمران خان کو انکار نہیں کرنا چاہیے۔

مقدمے کیلئے مصدقہ میڈیکل رپورٹ تو لازمی درکار ہو گی۔

یہ بھی پڑھیں : مذاکرات پر آمادگی اور توقعات

اسٹیبلشمنٹ کا سیاست سے الگ ہونے کا موقف قابل قبول ہے مگر سچی

بات ہے کہ اسے بھی اپنے کیے کی سزا خوب مل رہی ہے اور حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ففتھ جنریشن وار سر پر آ ٹھہری ہے،

لہذا اسے آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر اپنا کردار بیرونی سرحدوں

کے دفاع اور حکومت کے طلب کرنے پر آرٹیکل 245 کے تحت ہی ادا کرنا چاہیے۔

اپنی حدود سے تجاوز کرنے سے مکمل گریز کرنا ہو گا۔ سیاست و جمہوریت کے معاملات سیاستدان جانیں۔

فوج کے کسی ذیلی ادارے، اس کے سربراہ یا کسی افسر و اہلکار کو

ملوث پایا جائے یا اس پر الزام عائد ہو تو فوجی نظام کے مطابق

فوری توجہ مرکوز کر کے اصلاح احوال اور روک تھام کی جائے۔

عدلیہ بھی سیاستدانوں کو سیاسی تنازعات کے حل کیلئے پارلیمنٹ واپس بھیجے

اور صرف آئینی مقدمات کی تیز ترین سماعت کر کے انہیں جلد نمٹانے کا اہتمام کرے،

نیز اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو دور کر کے عوام کو فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنا کر اپنا اعتماد قائم کرے۔

مزید پڑھیئے : آخرکب تک لکھیں گے…؟

سیاستدان اپنے تنازعات و مقدمات کے حل کی خاطر فوج و عدلیہ کو

ملوث کرنے سے باز رہیں اور سڑکوں کی بجائے پارلیمنٹ میں آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنے کی روایت اپنائیں۔

ضرورت پڑے تو باہم مذاکرات کے ذریعے الجھنوں کو افہام و تفہیم سے سلجھائیں۔

اگر فوج سیاست کرتی رہی، عدلیہ سیاسی معاملات میں مصروف رہی

اور سیاستدان خود فیصلے کرنے کے بجائے اداروں کو ملوث کرتے رہے

تب حالات مزید بگڑ سکتے اور ملک و ملت کی نیا ڈوب سکتی ہے پھر اسے کوئی بھی نہیں تیرا سکتا۔

اب کرپشن، بے اصولیاں، بے قاعدگیاں، بے اعتدالیاں، بے ضابطگیاں

اور ایک دوسرے کو چور چور کہہ کر دور بھاگنا، آپس میں مل بیٹھ کر

تنازعات کا حل نہ نکالنا ترک کر دیں بالخصوص عمران خان فراموش نہ

کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عمر بھر دین اسلام کے

خلاف جنگ کرنے اور تکالیف دینے والوں کیساتھ بھی مذاکرات کیے

اور نجران کے پادریوں کیساتھ بھی بات چیت کی جو اس بات کا ثبوت ہے

کہ نشست اور گفتگو ضروری ہے، چاہے دشمن کتنا ہی برا کیوں نہ ہو۔

پاک وطن میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا نقصان سراسر پاکستان کو پہنچ رہا ہے،

جبکہ پورا پورا فائدہ امریکہ، اسرائیل، بھارت اور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کو ہو رہا ہے۔ ایسے میں آزادی نہیں بربادی ہی ممکن ہے۔

بحرانوں کا ایک ہی حل ، بحرانوں کا ایک ہی حل، بحرانوں کا ایک ہی حل ، بحرانوں کا ایک ہی حل ، بحرانوں کا ایک ہی حل ، بحرانوں کا ایک ہی حل

Imran Rasheed

عمران رشید خان صوبہ خیبر پختونخوا کے سینئر صحافی اور سٹوری رائٹر/تجزیہ کار ہیں۔ کرائمز ، تحقیقاتی رپورٹنگ ، افغان امور اور سماجی مسائل پر کافی عبور رکھتے ہیں ، اس وقت جے ٹی این پی کے اردو کیساتھ بحیثیت بیورو چیف خیبر پختونخوا فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ ادارہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d bloggers like this: