امریکی سازش کا بیانیہ اور عمران خان کا یوٹرن !
امریکی سازش کا بیانیہ اور عمران
تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان 7 ماہ تک قوم کو پاگل کرنے اور حساس ادارے کے اعلیٰ افسران کو مسلسل میر جعفر اور میر صادق قرار دینے کے بعد امریکی سازش کے اس بیانیئے سے دستبردار ہو گئے ہیں۔
اپنے اس بیانیئے سے دستبردار ہوتے ہوئے انہوں نے امریکہ کیساتھ دوستی کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔
برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کو انٹرویو مین عمران خان نے سائفر بیانیئے کو ماضی کا حصہ قرار دیا،
ان کے خیال میں سازش کا بیانیہ پیچھے رہ گیا ہے اور اب وہ امریکہ پر الزامات نہیں لگاتے۔
اگر وہ دوبارہ وزیراعظم بنے تو وہ تمام بیرونی ممالک خصوصاََ امریکہ کیساتھ اچھے تعلقات رکھنا چاہیں گے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مستقبل کے منصوبوں میں پاک فوج تعمیری کردار ادا کر سکتی ہے،
مگر اس میں توازن ضروری ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ حکومت عوام کی منتخب کردہ ہو اور اختیارات کسی اور کے پاس ہوں۔
پڑھیں : بیل منڈھے کیسے چڑھے گی؟
طاقت کا مرکز اگر کہیں اور ہو تو حکومت عوام کی توقعات پر پورا نہیں اُترتی۔
اس انٹرویو کے اگلے روز سرائے عالمگیر میں انہوں نے تحریک انصاف کے
جلسہ نما آزادی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان سے جن
معاملات پر تحقیقات کی درخواست کی، اس فہرست میں سے سائفر کی تحقیقات کا
مطالبہ بھی حیران کن طور پر مائنس ہو گیا اور عمران خان نے صرف یہ مطالبہ
کیا کہ چیف جسٹس صاحب میرے اوپر حملہ، اعظم سواتی اور شہباز گل تشدد کیس
کی جوڈیشنل انکوائری کرائیں۔
مزید پڑھیں : بحرانوں کا ایک ہی حل
گویا اب عمران خان سمجھتے ہیں حساس اداروں کے سربراہان پر الزامات
لگانے کے لئے ان کے پاس مزید وافر مواد موجود ہے، لہٰذا سائفر بیانیئے
سے اگر یوٹرن لے بھی لیا جائے تو جو لوگ ان کی عقیدت میں دنیا و مافیہا
سے بے خبر ہو چکے ہیں،ان پر کوئی اثر پڑے گا اور نہ ان سے کوئی یہ
پوچھے گا کہ امریکی سازش کا بیانیہ غلط تھا تو پورے ملک میں جلسوں،
لانگ مارچ اور انٹرویوز، قوم سے خطابات کے دوران آپ نے امپورٹڈ
حکومت، میر جعفر، میر صادق اور ہنڈلرز کی جو گردان کی اس کا کیا جواز تھا۔
عمران خان نے امریکی سازش کے اس بیانیئے سے اب لاتعلقی اختیار
کی ہے مگر در حقیقت یہ بیانیہ اسی وقت دفن ہو گیا تھا جب سابق وزیر
اعظم عمران خان نے شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور عمران خان کے
پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کی ایک آڈیو لیک ہوئی تھی جس میں عمران
خان فرما رہے تھے کہ ہم نے اس سائفر پر کھیلنا ہے کسی ملک کا نام نہیں
لینا، بس اس پر کھیلنا ہے اور اعظم خان انہیں مختلف مشورے دیتے ہوئے سنائی دیئے۔
سائفر معاملے میں عمران خان کی سوچ
مبصرین کا کہنا ہے کہ جب عمران خان کو یقین ہو گیا کہ ان کیخلاف تحریک
عدم اعتماد کامیاب ہو جائیگی ا ور ان کی حکومت چند گھنٹوں کی مہمان ہے تو
عوام کے پاس جا کر اپنی کارکردگی پیش کر کے ہمدردی حاصل کرنے کے لئے
ان کی جھولی خالی تھی کیونکہ پونے چار سالہ اقتدار میں وہ اپنا کوئی وعدہ
پورا نہیں کر سکے بلکہ عوام کا جینا محال کر دیا اور ملک کو ڈیفالٹ کے دہانے
پر پہنچا دیا اور خان صاحب ان حالات میں بھی صرف سازش کے ذریعے
مزید 8 سال کے لئے اقتدار کا خواب دیکھ رہے تھے۔ اپنی کارکردگی کے حوالے
سے تہی دامن ہونے کے باعث عمران خان نے امریکی سائفر کا ڈرامہ رچایا۔
ویسے بھی اب یہ بات تو ہر کوئی مان چکا ہے کہ مختلف ایشوز پر بیانیہ،
بیانیئے اور اس پر یوٹرن لینے میں عمران خان اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔
یہ بھی پڑھیں : اسلامی عقائد پر خوفناک حملہ
عمران خان جب امریکی سازش کے اس بیانیئے کیساتھ سختی سے جڑے
ہوئے تھے اور حقیقی آزادی کیلئے تن من دھن کی بازی لگائے ہوئے تھے
تو ملک کا سنجیدہ طبقہ اور پی ٹی آئی کے اندر کے بھی کچھ لوگ انہیں
سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی سڑکوں،
چوراہوں اور گلیوں میں زیر بحث نہیں لائی جاتی اور خاص طور پر ترقی
پذیر ممالک تو اس کے کسی طور بھی متحمل نہیں ہو سکتے۔
یہ بھی پڑھیں : قومی بیانیہ !
اب عمران خان نے امریکی سازش کے بیانیئے سے یوٹرن لے کر نئے
آرمی چیف کے تقرر کو اپنے بیانیئے کا مرکزی نقطہ بنا لیا ہے اور ان
کی کوشش ہے کہ 29 نومبر کو ریٹائر ہونیوالے آرمی چیف کو نہ صرف
طعن و تشنیع اور الزامات کا نشانہ بنائیں بلکہ نئے تعینات ہونیوالے آرمی
چیف کو بھی متنازع بنا کر انہیں دبائو میں لا سکیں۔ عمران خان نے ویسے
بھی گزشتہ 7 ماہ پاکستان کی سالمیت کے ذمہ دار ادارے پاک فوج کو جس
طرح سڑکوں اور چوراہوں میں بے توقیر کرنے کی کوشش کی ہے پاکستان
تو کیا دنیا میں کہیں بھی اس کی مثال نہیں ملتی اور اب نئے آرمی چیف کی
تقرری کو بھی وہ جس طرح متنازع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ بھی
ایک نئی روایت ہے۔
پڑھیئے : چیئرمین پی ٹی آئی سے تین سوالات
اگرچہ وزیر دفاع اور حکومتی سطح پر یہ کئی بار کہا جا چکا ہے کہ اس
تعیناتی کا ایک آئینی طریقہ کار ہے جس سے کسی صورت انحراف نہیں
کیا جا سکتا۔ یہ تعیناتی وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار ہے۔ کسی سے مشاورت
کرنا یا نہ کرنا ان کی صوابدید ہے، کوئی انہیں مجبور نہیں کر سکتا۔ اس کے
باوجود سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز کی طرف سے اس بات کو ایشو بنانا
افسوسناک ہے۔ اب عمران خان جس حقیقی آزادی مارچ کو لے کر اسلام آباد
کی بجائے پنڈی جا رہے ہیں (حالانکہ سائفر بیانیئے سے یوٹرن کے بعد مارچ
کا نام تبدیل ہونا چاہئے) اس میں اگرچہ شرکاء کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے.
پی ٹی آئی لانگ مارچ کو حکومتی سرپرستی حاصل
پنجاب اور کے پی میں تحریک انصاف کی حکومتیں ہیں اور حکومتی سرپرستی
میں اگر مارچ کا یہ حال ہے تو اگر سرکاری وسائل کے بغیر انہیں مارچ کرنا
پڑ گیا تو کیا کریں گے؟ اور یہ بات حکومت اور اسٹیبلشمنٹ بھی اچھی طرح
سمجھتی ہے، اس لئے عمران خان کسی دھونس یا دبائو کے ذریعے شاید کوئی
مطالبہ نہ منوا سکیں۔ یہ بات طے ہے کہ تحریک انصاف نے اگر کچھ حاصل
کرنا ہے تو اسے ان مارچوں اور احتجاج سے کچھ حاصل ہونیوالا نہیں۔ تحریک
انصاف کو جو کچھ بھی ملے گا سیاسی ڈائیلاگ اور پارلیمینٹ کے ذریعے ملے گا۔
یہی وجہ ہے کہ عمران خان احتجاج کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کیساتھ درپردہ مختلف سطح پر مذاکرات بھی کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیئے : معجزاتی وزیراعظم اور چودھری غلام حسین
تحریک انصاف کے کچھ رہنما حکومت کیساتھ مذاکرات میں مصروف
ہیں اور صدر عارف علوی عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان حائل
خلیج کو دُور کرنے کیلئے کوشاں ہیں مگر فوج کی طرف سے مسلسل یہ
جواب دیا جا رہا ہے کہ فوج نے سیاست سے لاتعلقی اختیار کر لی ہے اور
وہ اب اپنے آئینی کردار تک محدود ہو گئی ہے۔ تحریک انصاف نے قبل از
وقت انتخابات یا کسی اور مسئلے کیلئے مذاکرات کرنا ہیں تو پارلیمینٹ میں
جائے اپوزیشن کا کردار ادا کرے اور حکومت سے مذاکرات کرے۔ مگر
تحریک انصاف اور عمران خان سیاست سے علیحدگی اختیار کرنیوالی فوجی
قیادت کو مسلسل سیاست میں دوبارہ گھسنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے
ہیں، جس کیلئے کبھی وہ الزام تراشی کا سہارا لیتے ہیں۔ کبھی فوجی قیادت
کے مبینہ خفیہ معاملات سامنے لانے کی دھمکی دیتے ہیں اور کبھی
اپنے اوپر ہونیوالے حملے کا الزام حساس اداروں پر لگاتے ہیں۔
بیک ڈور مذاکرت اب بھی جاری، ذرائع
بعض اطلاعات تو یہ بھی ہیں صدر مملکت عارف علوی نے عمران خان
کی ہٹ دھرمی اور نئی شرائط کے باعث ہاتھ کھڑے کر دیئے ہیں اور
لاہور میں اپنی گفتگو کے دوران انہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے ہونیوالے
مذاکرات میںناکامی کا بھی عندیہ دے دیا؛ تاہم بعض ذرائع کا اصرار ہے کہ بیک ڈور مذاکرات اب بھی جاری ہیں۔
قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں،
مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ
جتن نیوز اردو انتظامیہ
امریکی سازش کا بیانیہ اور عمران ، امریکی سازش کا بیانیہ اور عمران ، امریکی سازش کا بیانیہ اور عمران ، امریکی سازش کا بیانیہ اور عمران ، امریکی سازش کا بیانیہ اور عمران
مزید تجزیئے ، فیچرز ، کالمز ، بلاگز،رپورٹس اور تبصرے ( == پڑھیں == )