کیا مصائب جھیلنا ہزارہ قوم کی قسمت یا مذہبی تعصب کا شکار۔۔۔؟
کالمز بلاگز فیچرز/ کیا مصائب جھیلنا ہزارہ
دھماکہ میں شہید ہونیوالوں کی تعداد 35 سے زائد ہے، اقوام متحدہ رپورٹ
اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان کے دارالحکومت کابل کے تعلیمی مرکز میں ہونیوالے خود کش دھماکے کے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 35 ہوگئی ہے، گزشتہ کابل پولیس نے تعداد20 بتائی تھی۔
طالبان کی پابندیوں کے باوجود ہزارہ قوم کی خواتین کا احتجاج، نسل کشی بند کرنے کا مطالبہ
اس المناک واقعے کے خلاف متاثرہ خاندانوں کی خواتین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھائے ریلی نکالی اور احتجاجی مظاہرہ کیا پلے کارڈز پر ‘ شیعہ ہونا کوئی جرم نہیں، ہزارہ قوم کی نسل کشی بند کرو جیسے نعرے لکھے تھے۔
مسلح طالبان کی موجودگی میں احتجاجی مظاہرہ
طالبان حکومت کے دور میں خواتین کے لیے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنا ہرگز خطرے سے خالی نہیں کئی خواتین اس جرم میں گرفتار ہوچکی ہیں۔
اس کے باوجود خواتین نے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے ہزارہ قوم کی نسل کشی بند کرنے کا مطالبہ کیا،
اس موقع پر بھاری اسلحہ سے لیس طالبان بھی موجود تھے۔
طالبان حکومت کا اقلیتوں کے تحفظ اور امان کا دعویٰ محض سیاسی بیان !
طالبان نے حکومت میں آنے کے بعد اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے جمعے کو ہونے والا حملہ طالبان کی نااہلی اور مکمل ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔
طالبان کا اقتدار سنبھالتے ہی ہزارہ کمیونٹی پر حملوں میں اضافہ
2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد دہشت گرد تنظیم دولتِ اسلامیہ داعش کی ذیلی تنظیم ہزارہ برادری پر ہونیوالے 13 حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے دیگر تین مہلک حملوں ملوث ہونے کا بتایا گیا، تاہم تاحال اس حملے کی ذمہ داری کسی گروپ نہیں قبول کی۔
جاں بحق و زخمی ہونیوالوں کی اصل تعداد اور حکومتی اعدادوشمار
ایچ آر ڈبلیو کی ستمبر میں جاری ہونیوالی رپورٹ میں حالیہ خونریزی کے علاؤہ تقریباً 700 سے زائد شیعہ برادری کے لوگ جاں بحق و زخمی ہوئے مئی کے مہینے میں دشت برچی کے ہی علاقے میں لڑکیوں کے سکول کے قریب تین دھماکے ہوئے تھے جس میں 85 افراد ہلاک اور 300 زخمی ہوئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر سکول جانے والی بچیاں تھیں۔
(یو این اے ایم اے) نے تصدیق کی کہ صرف کابل میں حالیہ حملوں کے دوران شیعہ برادری کے 120 افراد زخمی اور جاں بحق ہوئے، اس تعداد کو 900 کے لگ بھگ کہا جاسکتا ہے
لیکن ۔۔ !
افغانستان میں جتن اردو سروس کے معتبر ذرائع نے بتایا ہے کہ افغانستان میں شدت پسند داعش کی ذیلی تنظیم یا دوسرے لیبل سے موجود مذہبی نظریے کے حامیوں کے حملوں میں اہل تشیع کے شہداء و زخمیوں کی تعداد بتائے گئے اعداد و شمار سے غیر معمولی اضافے کیساتھ ہے،
اس کا تذکرہ ہزارہ قوم اور ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ میں بھی ہے،
سپاٹ رپورٹنگ اور حقائق کے متلاشی صحافی محافظ اہلکاروں سے خوفزدہ
ذرائع کے مطابق صحافی افغان طالبان کے اہلکاروں سے خوفزدہ ہیں، تاہم حکام کا ان کے ساتھ رویہ غیر مناسب نہیں،
ایسا عین ممکن ہے کہ نچلے طبقے کا استعمال جبری حربے کا حصہ ہو،
ایک افغان صحافی نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ آن لائن میڈیا کے چند نمائندوں تک ‘فوری خبر’ افغان پولیس آفیسرز کے ذریعے پہنچتی ہے،
بعض کیسز ملی بھگت سے افواہ قرار دیکر ان کا اندراج نہیں کیا جا رہا،
اس میں زیادہ تر طالبان اہلکاروں کی جانب سے زیادتیوں کے کیسز بتائے گئے،
سینئر صحافی کالمسٹ ادیب سکندر خان کا مختصر کالم
اس جہان فانی میں کچھ لوگ شاید مقدر ہی خراب لے کر آتے ہیں جو زندگی کے ہر مقام اور ہر لمحے ظلم وستم کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔
میری مراد ہزارہ برادری کے بے ضرر اور بے آسرا لوگوں سے ہے جنہیں افغانستان سے مذہبی منافرت کے سبب پاکستان ہجرت کرنا پڑتی ہے اس خیال سے کہ یہاں کے لوگ روشن خیال اور مہذب ہیں۔ لیکن یہاں آکر بھی انہیں تحفظ نہیں ملتا بلکہ بے دردی سے مارے جاتے ہیں۔
انسانیت کے تحفظ اور بقاء کا ضامن مذہب اسلام
گزشتہ سال کوئیٹہ کا لرزہ خیز واقعہ ابھی ذہنوں سے محو نہیں ہوا کہ حال ہی میں افغانستان میں بیسیوں بے قصور طلبا و طالبات کو خود کش حملہ میں شہید کر دیا گیا۔ ان بد نصیبوں کا مسلک جدا سہی مذہب تو ایک ہے۔مسلمان تو ہیں اور سب سے بڑھ کر انسان ہیں اور انسانیت کا قتل اسلام میں کیونکر جائز ہو سکتا ہے یہ تو انسانیت کے تحفظ اور بقا کا ضامن مذہب ہے۔
اتنا ظلم تو بقول غالب کافروں پر بھی جائز نہیں۔۔
حد چاہئیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہگار ہوں کافر نہیں ہوں میں
ہزارہ قوم کی نسل کشی پر عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی باعث تشویش ہے، مظفر علی آخوند زادہ



امامیہ جرگہ خیبرپختونخوا کے رابطہ سیکرٹری مظفر علی آخوند زادہ نے جتن اردو سروس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ
افغانستان میں عرصہ دراز سے ہزارہ برادری کی قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری ہے اور اب ایک ایسی حکومت جو کہ خود کو ایک مکمل اسلامی حکومت کہہ رہے کے ہوتے ہوئے اجتماعات کو نشانہ اور تو اور سکول کی بچیوں ، عورتوں کا نا حق قتل کیا جارہا ہے امارات اسلامیہ حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے، اسکے علاوہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی خاموشی بھی باعث حیرت ہے
اپنے حقوق کیلے پکارنے والے بچے بچیوں کو دیکھ کر پاکستانی عوام کو افسوس ہوا ہمیں افسوس ہے کہ مخصوص ایجنڈے کے تحت انہیں ظلم اور جبرکا نشانہ بنایا جارہا ہے سرحد کے دونوں پار کیسے لوگ چلے جاتے ہیں؟
اگر داعش ہےتو کیسے آرہی ہے اسکےپیچھے بھی بین القوامی طاقتیں ہیں داعش اورامریکہ کو کیسے الگ دیکھا جاسکتا ہے؟
سب اسی پیداوار ہیں مختلف ادوار میں مختلف نام دیئے جاتے ہیں لیکن کام وہی ظلم و جبر روا رکھنا۔۔۔
شہریوں کا تحفظ ریاست کی اہم ذمہ داری
قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد نقوی نے ہماری تنظیم شیعہ علماء کونسل پاکستان نے بھی اس کے خلاف احتجاج کیا ہے میں بحیثیت رابطہ سیکرٹری امامیہ جرگہ خیبرپختونخوا اس واقعہ کی پرزور مذمت انہوں نے مزید کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام کے تحفظ کسی بھی ریاست کی اولین ذمہ داری ہوتا ہے ھم حکومت امارات اسلامی افغانستان اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ ہزارہ برادری کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے عملی و موثر اقدامات اٹھانے چاہیے ۔
افغانستان میں ہزارہ شیعہ قوم غیر محفوظ مگر کیوں ۔۔۔ ؟



افغانستان میں رواں سال کے دوران شیعہ مکتب سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد جن میں بچے، سے لیکر عمر رسیدہ مرد خواتین کو موت کے گھاٹ اتار دیار دیا گیا دہشت گردوں نے جمعہ کے اجتماعات، عبادت گاہوں ، تعلیمی اداروں سمیت کسی بھی مقام پر اس کمیونٹی کو نشانہ بنایا عالمی اداروں کی رپورٹس میں یہ بالآخر یہ بات بھی سامنے آہی گئی طالبان حکومت مبینہ طور پر اس کمیونٹی کے تحفظ توانائیاں اور وقت دونوں کا ضیاع سمجھتی ہے کیونکہ ہزارہ قوم کو امان دینے کیلئے تو شاید کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہاں انکے نزدیک دشمنی کی وجوہات ہزارہ کمیونٹی کا شیعہ ہونا نظر آرہا ہے اس حوالے سے ہزارہ قوم سابقہ حکومتی نمائندہ کا بیان بھی ہے کہ کچھ بھی ہو جائے طالبان ہمارے حق میں انصاف نہیں کرینگے اس کے علاؤہ اگر یہاں ماضی پر روشنی ڈالیں تو۔۔۔
قصہ مختصر
ہزارہ قوم کا تعلق مسلمانوں کے مسلک شیعہ سے ہے انکی زبان دری فارسی کی بولی ہزارگی ہے اور اسی بولی نے انھیں دوسرے افغانوں سے الگ کیا انکے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ لوگ 13 ویں صدی میں افغان سر زمین میں داخل ہونے والے منگول فوجیوں کی اولادیں ہیں انکی خاص آبادی ہزارستان میں جب کہ عام پر طور پر افغانستان کے دیگر حصوں میں ہے تاہم ملک بھر میں انکی کل آبادی تنازعہ کا شکار ہے عام طور پر 25 سے 50 لاکھ کے درمیان اور اس حساب سے افغانستان کی کل آبادی کا تقریباً 30 فیصد مانی جاتی ہے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ شیعہ ہونے کی وجہ سے پر مختلف ادوار میں افغان حکومتوں کے مظالم ڈھانے کی تاریخ تقریباً ایک صدی پرانی ہے جبکہ 1990کی دہائی میں طالبان فورسز نے کمیونٹی کے لوگوں کو درد ناک اذیتیں دیں اور بلا صنفی تفریق کے بڑے پیمانے پر انکا قتل عام کیا اور طالبان کی پچھلی دور حکومت میں بھی اس کمیونٹی پر ظلم جبر کا روا رکھا عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق موجودہ دور میں بھی طالبان حکومت نے انکے تحفظ کیلئے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے۔
داعش اور طالبان میں زیادہ فرق نہیں۔۔!
ہزارہ قوم کے لوگ داعش اور طالبان میں زیادہ فرق نہیں سمجھتے انکے ذہنوں میں بس ایک بات گھر کر کی ہے کہ ان کیلئے شیعہ ہونا یہ جرم ہی کافی ہے۔۔ کیونکہ طالبان سخت گیر سنی عقیدہ رکھتے ہیں اور طالبان میں مذہبی شدت پسند افراد کی تعداد ظاہری اور چھپی اشکال میں موجود ہیں جن کا عقائد کی وجہ سے نام نہاد دولت اسلامیہ کی طرف زیادہ جھکاؤ اور روابط بھی ہیں ماضی میں ایسی باتیں منظرعام پر آچکیں ہیں اور طالبان کے اندر موجود اہسے عناصر انکے لئے پریشانی کا سبب بھی بنے۔اگلی بات یہ ہے کہ صوفی اور سلفی دو علیحدہ سوچ و فکر سے تعلق رکھتے ہیں یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کو چاہئیے کہ اب ہزارہ قوم کو جینے کا حق دلوانے کیلئے اقدامات اٹھائیں اور اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمہ داری عالم اسلام ، علماء حق کی بنتی ہے کیونکہ اگر ذہنی قید سے آزاد ہوکر سوچا جائے تو موجودہ دور میں علماء حق کا اہم ترین فرض دکھائی دیتا ہے۔
جتن اردو قارئین تک مکمل تفصیلات پہنچانا اپنی اولین ذمہ داری اور غیر جانبداری فرض سمجھتا ہے, ھمارے بیورو چیف عمران رشید خان سے رابطے کیلئے وٹس ایپ بٹن کا استعمال کیجیے شکریہ
قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں، مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ جتن نیوز اردو انتظامیہ
کیا مصائب جھیلنا ہزارہ