ٹی ٹی پی اب بھی سرگرم،افغانستان دہشتگردوں کیلئے محفوظ پناہ گاہ،اقوام متحدہ
واشنگٹن(جے ٹی این پی کے) افغانستان دہشتگردوں کیلئے محفوظ پناہ گاہ
اقوام متحدہ کے مبصرین کی ایک ٹیم کی رپورٹ کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے تین ہزار سے پانچ ہزار جنگجو اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔
میڈیارپورٹس کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھیجی گئی رپورٹ
میں یہ بھی خبردار کیا گیا کہ طالبان کے زیر انتظام افغانستان، القاعدہ اور دیگر
ایسے کئی دہشت گرد گروپوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن سکتا ہے جن کا تعلق
وسطی ایشیا اور اس سے باہر کے خطوں سے ہے۔
آپکے آئندہ 7 روز جتن کُنڈلی کی نظر میں اور ردِ مشکلات کیلئے خصوصی وظیفہ
امریکی حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ القاعدہ کی سرگرمیوں کو روکنے کے اعلانیہ وعدے کے باوجود افغانستان کے نئے طالبان رہنما ایسا نہیں کر رہے.
تاہم طالبان امریکی حکام کے اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی 29 ویں
رپورٹ جنوبی ایشیا اور اس سے باہر سرگرم دہشت گرد گروپوں کی ایک وسیع تعداد
پر روشنی ڈالتی ہے.
اس میں جون سے دسمبر 2021 کے درمیان ہونے والے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں جنوبی ایشیا سے متعلق باب میں افغانستان میں طالبان کے قبضے اور خطے کے دیگر ممالک پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ۔
رپورٹ میں ٹی ٹی پی کو ان گروپوں میں شامل کیا گیا ہے جن کے طالبان، القاعدہ
اور داعش،خراسان سمیت خطے کے تمام بڑے دہشت گرد گروپوں کے ساتھ
قریبی تعلقات ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے نئے حکمران ٹی ٹی پی اور پاکستان کے
درمیان جنگ بندی کے لیے ثالثی کر رہے ہیں اور اس ثالثی سے پاکستان کے
خلاف ٹی ٹی پی کے حملوں میں کمی آئی ہے۔
رپورٹ میں غزنی، ہلمند، قندھار، نمروز، پکتیکا اور زابل کے صوبوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں یہ گروپ طالبان کے ساتھ مل کر معزول افغان حکومت کے خلاف لڑتا تھا۔
اقوام متحدہ کے ایک رکن ملک نے بتایا کہ اسامہ بن لادن کے بیٹے عبداللہ نے طالبان کے ساتھ ملاقاتوں کیلئے اکتوبر میں افغانستان کا دورہ کیا۔
رپورٹ میں دعوی کیا گیا کہ القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری جنوری 2021 تک زندہ تھے تاہم ان کی صحت خراب تھی۔
افغانستان دہشتگردوں کیلئے محفوظ پناہ گاہ
قارئین : ہماری کاوش پسند آئے تو شیئر ، اپڈیٹ رہنے کیلئے فالو کریں