اسد اللہؑ کی شیر بیٹی فاتح کوفہ و شام ام المصائب زینب الکبریٰ سلام اللہ علیہا
اسد اللہؑ کی شیر بیٹی
ہر سال پندرہ رجب کا دن اہل بیت علیہم السلام اور ان کے چاہنے والوں کیلئے
غم وحزن اور درد ناک یادوں کے ہمراہ طلوع ہوتا ہے، یہ وہ دن ہے جس میں
ثانی زہراؑ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اس دنیا کو ہمیشہ کیلئے خیر باد کہا۔
اس مناسبت سے شیریکتہ الحسین حضرت زینبؑ سلام اللہ علیہا کی حیات مبارکہ
کے چند پہلووں ذکر کر کے ایمان کو تازہ ، امام زمانہ کے حضور ہدیہ تعزیت
پیش کرتے ہیں، جب کہ دشمنان محمد و آل محمدؐ پر لعنت بھیجتے ہیں۔
= پڑھیں = سیرت خاتون جنت سیدہ فاطمة الزاہرہؑ
حضرت زینب سلام اللہ علیہا امام علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ سلام اللہ
علیہا کی دختر اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نواسی 5 جمادی
الاول 6ھ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں۔ وہ کس قدر مبارک و مسعود گھڑی تھی،
پورے مدینہ میں سرور و شادمانی کی لہر دوڑ رہی تھی۔ رسول اسلام کے گھر میں
انکی عزیز بیٹی حضرت فاطمہ زہراؑ کی آغوش میں ایک چاند کا ٹکڑا اتر آیا تھا۔
سرکار دو عالم کہیں جاتے یا واپس آتے درِ سیدہ پر سلام کرتے
خود نبی اکرم ؐسفر میں تھے علی ابن ابی طا لبؑ نے بیٹی کو آغوش میں لیا ایک کان
میں اذان ، دوسرے میں اقامت کہی اور دیر تک سینے سے لگائے ٹہلتے رہے، سب
رسول اسلام ؐ کے منتظر تھے دیکھیں آپ اپنی نواسی کیلئے کیا نام منتخب کرتے ہیں۔
رسول اسلامؐ جن کا ہمیشہ سے یہ معمول تھا کہ جب بھی کہیں جاتے تو بیٹی فاطمہ ؑ
کے دروازے پر سلام کر کے رخصت ہوتے اور جب بھی کہیں سے واپس ہوتے تو
سب سے پہلے در سیدہ ؑپر آ کر سلام کرتے اور بیٹی سے ملاقات کے بعد کہیں اور
جاتے تھے۔
اللہ نے بچی کا نام ” زینب ” منتخب کیا، فرمان رسول اکرمْ
آپؐ جیسے ہی سفر سے پلٹے پہلے فاطمہؑ کے گھر داخل ہوئے اہلخانہ کو سلام
اور نو مولود کی مبارکباد پیش کی، حضرت علی ؑنے بیٹی کو ماں کی آغوش سے لے کر
نانا کی آغوش میں دیدیا۔ روایت ہے نبی اکرمؐ نے پیار کیا اور کچھ دیر تامل کے بعد فرمایا،
خدا نے اس بچی کا نام” زینب ” منتخب کیا ہے۔ پھر اس کے بعد جبرائیل ؑ نے نبی کریم ؑ
کو ان مصائب کے بارے میں بتایا جو حضرت زینب ؑ پر ڈھائے جائیں گے، ان مصائب
کو سن کر رسول خدا نے گریہ کیا اور فرمایا، جو بھی اس بچی کے مصائب پر گریہ
کریگا اس کا اجر وہی ہے جو ان کے بھائی حسن و حسینؑ پر رونے کا ہے۔
= یہ بھی پڑھیں = بیت اللہ میں مولاعلی ّ کی ولادت کا راز!
فضیلتوں و کرامتوں سے معمور گھر میں رسول پاک، علی ؑ و فاطمہ ؑ کی مانند عظیم
ہستیوں کے دامن میں زندگی بسر کرنیوالی حضرت زینب ؑ کا و جو د تاریخ بشریت کا
ایک غیر معمولی کردار بن گیا کیونکہ امام کے الفاظ میں اس عالمہ غیر معلمہ اور
فہیمہ غیر مفہمہ نے اپنے بے مثل ہوش و ذکاوت سے کام لیکر، عصمتی ماحول سے
بھرپور فائدہ اٹھایا اور الٰہی علوم و معارف کے آفتاب و ماہتاب سے علم و معرفت کی
کرنیں سمیٹ کر خود اخلا ق و کمالات کی درخشاں قندیل بن گئیں۔
جناب زینبؑ کی تاریخ حیات ہر لحاظ سے منفر و لاثانی
جناب زینبؑ کی تاریخ حیات کے معنوی کمالات کی تجلیاں، جو زندگی کے مختلف
حصول پر محیط نظر آتی ہیں، آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہیں چاہے وہ اپنی ماں کی
آغوش میں ہمکتی و مسکراتی تین چار کی معصوم بچی ہو، کوفہ میں خلیفہ وقت کی
بیٹی کی حیثیت سے خواتین اسلام کے درمیان اپنے علمی دروس کے ذریعہ علم و
معرفت کے موتی نچھاور کرنیوالی”عقیلہ قریش” ہو یا واقعہ کربلا میں اپنے مظلوم
بھائی امام حسین ؑ کی شریک و پشت پناہ ، فاتح کوفہ و شام ہو، ہر جگہ ، ہر منزل میں
اپنے وجود اور اپنے زریں کردار و عمل کے لحاظ سے منفرد و لاثانی نظر آتی ہیں۔
” ثانی زہرا” اور ” عقیلہ بنی ہاشم ” آپ ّ کے خطابات
روایت کے مطابق جناب فاطمہ زہراؑ کی شہادت کے بعد علی ابن ابی طالب ؑ کے تمام
خانگی امور کے علاوہ خواتین اسلام کی تہذیب و تربیت کی ذمہ داریوں کو اس طرح
اپنے کاندھوں پر سنبھال لیا کہ تاریخ آپ کو ” ثانی زہرا” اور ” عقیلہ بنی ہاشم ” جیسے
خطاب عطا کرنے پر مجبور ہو گئی۔
عالمہ غیر معلمہ ، ام المصائب کے ناموں سے معروف
حضرت زینبؑ نے نبوت و امامت کے بوستان علم و دانش سے معرفت و حکمت کے
پھول اس طرح اپنے دامن میں سمیٹ لئے تھے کہ آپ نے احادیث کی روایت اور
تفسیر قرآن کیلئے مدینہ اور اس کے بعد علی ابن ابی طالب ؑکے دور خلافت میں کوفہ
کے اندر، با قاعدہ مدرسہ کھول رکھا تھا جہاں خواتین کی ایک بڑی تعداد اسلامی علوم
و معارف کی تعلیم حاصل کرتی تھی۔ جناب زینب نے اپنے زمانے کی عورتوں کیلئے
تعلیم و تربیت کا ایک وسیع دسترخوان بچھا رکھا تھا، جہاں بہت سی خواتین آئیں اور
اعلی علمی و معنوی مراتب پر فائز ہوئیں۔
زینب کبریٰؑ کی شادی جناب عبداللہ ابن جعفرّ سے ہوئی
حضرت علی ؑ نے اپنی بیٹی جناب زینب کبریٰؑ کی شادی اپنے بھتیجے جناب عبداللہ
ابن جعفرسے کی ، جن کی کفالت و تربیت، جناب جعفر طیار کی شہادت کے بعد
خود نبی اکرمؐ نے اپنے ذمہ لے لی تھی اور رسول اسلامؐ کی رحلت کے بعد علی
بن ابی طالب ؑنے ہی ان کی بھی پرورش کی تھی اس کے باوجود روایت میں ہے کہ
حضرت علی ؑنے عبداللہ ابن جعفر سے شادی سے قبل یہ وعدہ لے لیا تھا کہ وہ شادی
کے بعد جناب زینب کبریٰؑ کے اعلی مقاصد کی راہ میں کبھی حائل نہیں ہونگے اگر
وہ اپنے بھائی امام حسین ؑکےساتھ سفر کریں تو وہ اپنے اس فعل میں مختار ہونگی۔
جناب عبداللہ ابن جعفرؑ کااپنے وعدے پر عمل
چنانچہ جناب عبداللہ ابن جعفرؑ نے بھی اپنے وعدے پر عمل کیا اور حضرت علیؑ کے
زمانے سے لیکر امام زین العابدین ؑکے زمانے تک ہمیشہ دین اسلام کی خدمت اور امام
وقت کی پشت پناہی کے عمل میں جناب زینب ؑ کی حمایت اور نصرت و مدد کی حضرت
علی ؑکی شہادت کے بعد جناب زینبؑ کو اپنے شوہر کے گھر میں بھی آرام و آسائش کی
زندگی میسر تھی، جناب عبداللہ اقتصادی اعتبار سے موفق تھے۔
= ضرور پڑھیں = من کنت مولا ہ فہذا علی مولا
انہوں نے ہر طرح کی مادی و معنوی سہولیات حضرت زینب ؑکیلئے مہیا کر رکھی تھیں۔
وہ جانتے تھے جناب زینب ؑاپنے بھائیوں امام حسن ؑاور امام حسین ؑسے بہت زیادہ مانوس
ہیں اور ان کے بغیر نہیں رہ سکتیں، لہٰذا وہ اس راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں بنے۔ خاص
طور پر جناب زینبؑ امام حسین ؑسے بہت زیادہ قریب تھیں اور یہ محبت و قربت بچپن
سے ہی دونوں میں پرورش پا رہی تھی۔
بھائی امام حسین ّ سے جناب زینب ّ کی محبت
چنانچہ روایت میں ہے کہ جب آپ بہت چھوٹی تھیں ایک دن معصومہ عالم ؑنے پیغمبر
اسلام سے عرض کی کہ بابا ! مجھے زینبؑ اور حسین ؑکی محبت دیکھ کر کبھی کبھی
حیرت ہوتی ہے یہ لڑکی اگر حسینؑ کو ایک لمحے کیلئے نہیں دیکھتی تو بے چین ہو
جاتی ہے، اس وقت رسول اسلام نے فرمایا، بیٹی ! وہ مستقبل میں اپنے بھائی حسین ؑ
کی مصیبتوں اور سختیوں میں شریک ہو گی”۔
زندگی کے ہر موڑ پر بھائی امام حسین ّ کا ساتھ
اسلئے جناب زینبؑ عظیم مقاصد کے تحت آرام و آسائش کی زندگی ترک کردی اور
جب امام حسین ؑنواسہ رسول نے اسلام کی حفاظت اور ملت اسلامیہ کی اصلاح کیلئے
کربلا کا سفر اختیار کیا تو جناب زینب ؑبھی بھائی کیساتھ ہو گئیں۔ آپ نے اپنی زندگی
کے مختلف مرحلوں میں اسلامی معاشرہ میں رونما ہونیوالے طرح طرح کے تغیرات
بہت قریب سے دیکھے تھے۔
بنو اُمیہ کی احکامات اسلامی کی پامالیوں سے آگاہی
خاص طور پر یہ دیکھ کر کہ امویوں نے کس طرح دور جاہلیت کی قومی عصبیت
اور نسلی افتخارات کو رواج دے رکھاہے اور علی الاعلان اسلامی احکامات کو
پامال کر رہے ہیں، علی و فاطمہؑ کی بیٹی اپنے بھائی کی محبت سے قطع نظر اسلامی
اقدار کی حفاظت اور اموی انحراف سے اسلام کی نجات کیلئے امام حسین ؑکیساتھ ہوئیں
کیونکہ آپ کا پورا وجود عشق حق اور عشق اسلام سے سرشار تھا۔
بی بی پاک ّ کا واقعہ کربلا میں بے مثل کردار
جناب زینب ؑنے واقعہ کربلا میں اپنی بے مثال شرکت کے ذریعے تاریخ بشریت میں
حق کی سربلندی کیلئے لڑی جانیوالی سب سے عظیم جنگ اور جہاد و سرفروشی کے
سب سے بڑے معرکہ کربلا کے انقلاب کو رہتی دنیا کیلئے جاوداں بنا دیا۔ جناب زینب ؑ
کی قربانی کا بڑا حصہ میدان کربلا میں نواسہ رسول امام حسین ؑکی شہادت کے بعد اہل
بیت رسول کی اسیری اور کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں تشہیر سے تعلق
رکھتا ہے۔
واقعہ کربلا اور بعد میں آپکیّ شخصیت کے اہم و ممتاز پہلو
اس دوران جناب زینب کبریٰؑ کی شخصیت کے کچھ اہم اور ممتاز پہلو، حسین ترین شکل
میں جلوہ گر ہوئے۔ خدا کے فیصلے پر ہر طرح راضی و خوش رہنا اور اسلامی احکام
کے سامنے سخت حالات میں سر تسلیم و رضا خم رکھنا علی کی بیٹی کا سب سے
بڑا امتیازہے، صبر، شجا عت ، فصاحت و بلاغت اور نظم و تدبیر کے اوصاف سے
صحیح اور پر وقار انداز میں استفادہ نے آپکو عظیم انسانی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں
بھرپور کامیابی عطا کی۔
یزید کی سفاکی کا پردہ چاک کیا، لوگوں کی آنکھیں کھولیں
جناب زینب ؑنے اپنے وقت کے ظالم و سفاک ترین افراد کے سامنے پوری دلیری کیساتھ
اسیری کی پروا کئے بغیر مظلوموں کے حقوق کا دفاع کیا،اور اسلام و قرآن کی حقانیت
کا پرچم بلند کیا جو آج بھی سر بلند ہے، جن لوگوں نے نواسہ رسولؐ کو ایک ویران و
غیر آباد صحرا میں شہید کر کے، حقائق کو پلٹنے اور اپنے حق میں الٹا کر کے پیش
کرنے کی جرات کی تھی، کوفہ و شام کے درباروں، کوفہ و شام کے بے حس عوام کی
آنکھوں پر پڑے غفلت و بے شرمی کے پردے چاک کئے۔
کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں لازوال خطبات
باوجود اس کے کہ بظاہر تمام حالات بنی اُمیہ اور ان کے حکمراں یزید فاسق و فاجر کے
حق میں تھے۔ جناب زینب ؑنے اپنے خطبوں کے ذریعے اُموی حکام کی ظالمانہ ماہیت
برملا کر کے ابتدائی مراحل میں ہی نواسہ رسول کے قاتلوں کی مہم کو ناکام و نامراد کر
دیا۔ واقعہ کربلا کے بعد حضرت زینب ؑ کا کردار بہت اہم رہا، واقعہ کربلا کے بعد وہ
دمشق لے جائی گئیں، جہاں یزید کے دربار میں دیا گیا ان کا خطبہ بہت مشہور ہے۔
====> دربار یزید میں بی بی پاک کا جلالی (== خطبہ ==)
آپ ؑ نے اپنے خطبے میں فرمایا ، یزید اگرچہ حادثات زمانہ نے ہمیں اس موڑ پر لا کھڑا
کیا ہے اور مجھے قیدی بنایا گیا ہے لیکن جان لے میرے نزدیک تیری طاقت کچھ بھی نہیں۔
خدا کی قسم، خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی، اس کے سوا کسی اور سے گلہ و شکوہ بھی نہیں کرونگی۔
====> دربار ابن زیاد میں شیر خدا کی بیٹی کا (== خطبہ ==)
اے یزید مکر و حیلے کے ذریعہ تو ہم لوگوں سے جتنی دشمنی کر سکتا ہے کرلے۔ ہم اہل
بیت سے دشمنی کیلئے تو جتنی سازشیں کر سکتا ہے کرلے، لیکن خدا کی قسم
تو ہمارے نام کو لوگوں کے دل و ذہن اور تاریخ سے نہیں مٹا سکتا،اور چراغ وحی کو نہیں
بجھا سکتا، تو ہماری حیات اور ہمارے افتخارات کو نہیں مٹا سکتا، اور اسی طرح تو اپنے
دامن پر لگے ننگ و عار کے بدنما داغ کو بھی نہیں دھو سکتا، خدا کی نفرین و لعنت ہو
ظالموں اور ستمگروں پر۔
ہمارا سلام زینب بنت علیؑ کی بقا اسلام کیلئے قربانیوں پر
ہمارا سلام ہے اس عظیم زینب بنت علیؑ پر کہ جو اسلام کی حفاظت و بقا کیلئے قربانیاں
دینے سے ذرا برابر بھی نہ گھبرائیں، اور اپنے بھائی کا بے سر لاشہ ہاتھوں میں لے کر
آسمان کی طرف منہ کر کے فرماتیں ،اے اللہ ہماری اس قربانی کو قبول فرما۔
زینب ؑنے کوفہ و شام میں ہر بولنے والے کو خاموش کر دیا
حضرت زینب ؑنے اپنی قوتِ گفتار کے ذریعے کوفہ و شام میں ہر بولنے والے کو خاموش
کر دیا , اپنے خطبوں کے ذریعے امام حسین ؑکی مظلومانہ شہادت اور اہل بیت رسول کی
عظمت کو دنیا تک پہنچایا، یزید اور اسکی طرح کے موجودہ اور سابقہ ظالم حکمرانوں کی
منافقت و اسلام دشمنی کا پول دنیا کے سامنے کھول دیا۔ یہ حضرت زینب ؑکے کوفہ
و شام میں دیے گئے خطبے ہی تھے کہ جنہوں نے یزیدی حکومت کی جڑوں کو ہلا کر رکھ
دیا اور یزید ملعون جیسا دشمن اسیران کربلا کو واپس مدینہ بھیجنے پر مجبور ہو گیا۔
دوسری مرتبہ مدینہ سے شام جاتے ہوئے شہادت
روایت میں ہے کہ جب حضرت زینب ؑنے مدینہ سے شام کا سفر کیا تو راستے میں اس
درخت کے پاس سے گزریں کہ جس پر ظالموں نے اسیران کربلا کا قافلہ لاتے ہوئے
امام حسین ؑکا سر اقدس لٹکایا تھا اس درخت کا دیکھنا تھا کہ وہ تمام مصائب پھر سے
آنکھوں کے سامنے آ گئے کہ جن کو حضرت زینب ؑ نے دیکھا تھا اور کربلا کے دیے
ہوئے تمام زخم دوبارہ ہرے ہو گئے اور دمشق کے قریب 15 رجب 66 ہجری کو اس
دنیا سے رخصت ہو گئیں، ایک روایت میں ملتا ہے یزید کی طرف سے زہر دیا گیا اور
شہید ہو گئیں۔
سیرت زینب بنت علی ؑ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں
تاریخ شیعہ مظلومیت و مصیبت بھری ہے کہ جس میں حضرت زینب بنت علی ؑ کی
زندگی پر جب نظر ڈالی جائے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اگر مومن کے دل سے
پوچھا جائے تو رو رو کر یہی کہے گا نہیں معلوم مظلومیت زینب ؑکہاں ختم ہو گی۔ بس
یوں کہے گا خاندان عصمت و طہارت کی مظلومیت کا آئینہ ہے زینب ؑ جس کی پوری
زندگی ہی فرش عزاء میں گزر گئی-
زینب یعنی تمام مصیبتوں کا مرکز یعنی صبر کا پہاڑ
اتنی مصیبتوں اور سختیوں کے بعد سخت مریض ہو گئیں اور اس دنیا سے رخصت
ہو گئیں، تاریخ گواہ ہے رحلت حضرت زینب ؑہمیں نہ فقط ان کے غم میں رولاتی ہے
بلکہ رسول خدا ، حضرت زہراء،امام حسن ، امام حسین ؑ اور ان کے انصار کے غم
دہراتی ہے ، زینب یعنی تمام مصیبتوں کا مرکز یعنی صبر کا پہاڑ۔
۔۔۔ نوٹ ۔۔۔ قارئین ہماری کاوش پسند آئے تو ’’ فالو ‘‘ کریں ، مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں، شکریہ،
جتن انتظامیہ
اسد اللہؑ کی شیر بیٹی , اسد اللہؑ کی شیر بیٹی , اسد اللہؑ کی شیر بیٹی , اسد اللہؑ کی شیر بیٹی , اسد اللہؑ کی شیر بیٹی
اسد اللہؑ کی شیر بیٹی , اسد اللہؑ کی شیر بیٹی , اسد اللہؑ کی شیر بیٹی , اسد اللہؑ کی شیر بیٹی , اسد اللہؑ کی شیر بیٹی