آخر کب تک لکھیں گے ۔۔۔؟

آخر کب تک لکھیں گے
کسی بھی اصلاح کیلئے، کسی کی تطہیر ، کسی کو صراط مستقیم دکھانے، اور کسی بھی مسئلہ کے حل کیلئے ایک حد تک لکھا، بولا اور کہا جا سکتا ہے۔

حد ختم ہونے کے بعد تو پھر کوئی معجزہ ، کرامت یا کسی بھلے آدمی کی دعا ہی ہو سکتی ہے جو کسی بگاڑ کو سنوار دے۔

برے کو اچھا اور اچھے کو بہت ہی اچھا کر دے، لیکن فی الحال ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا،

انسانی زندگی سے جڑا ہر شعبہ بگاڑ ہی بگاڑ کا شکار ہے، تو پھر ذہن میں یہی بات ابھرتی ہے کہ آخرکب تک لکھیں گے۔

پڑھیں : استغفر اللہ، استغفر اللہ اور بس استغفر اللہ

کسی پر جُوں تک نہیں رینگتی، ایک عام فرد سے لیکر وقت کے حکمران

اور چھوٹی سی آرگنائزیشن سے لیکر بڑے بڑے اداروں تک کی فقط یہی

خواہش اور دوسروں پر یہی جبر ہوتا ہے کہ انہیں ہمہ وقت توصیف و تعریف کے سند سے نوازا جائے۔

ہماری طرح کا کوئی لکھاری اگر ذرا سی بھی سچی و کھری بات کہہ دے

تو بڑے بڑوں کو وہ مروڑ اٹھنے لگتا ہے کہ ہم بتا نہیں سکتے، خفا اور ناراض ہونے کا تاثر دیا جاتا ہے،

بعض اوقات دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔

بعض دولت کے پجاری جو اپنی تحریریں اپنی آواز حتیٰ کہ اپنا سب

کچھ چند سکوں یا بھاری رقوم کے عوض بیچ دیتے ہیں ہم جیسے گمنام

لکھاریوں کے بارے میں بڑے بڑے ایوانوں میں یہ کہنے تک سے بھی گریز نہیں کرتے کہ جناب فلاں سے مت گھبرائیں

اسے تو ہم جیسے لکھاریوں کے ہاں کوئی مقام ہی حاصل نہیں ہے۔

مزید پڑھیں : شطرنج اور تماشائی !

ارے صاحب! ایسے زر پرستوں اور ضمیر فروشوں کی محفل رندانہ میں ہم

جیسے فقیر قلندروں کو کون جانے پہچانے گا، ہاں اگر ایسے صحبت طالع

رکھنے والے کسی صالح کے ہتھے چڑھ گئے، ناں تو وہ ہم فقیروں کا ایسا تعارف کرا دیں گے کہ چھٹی کا دودھ یاد آجائے گا،

یہ تو شکر ہے اللہ کریم کا اور عطا ہے سرکار دو عالم سرور کائنات، فخر موجودات،

تاجدار مدینہ سیدنا احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی

کہ ” بات اب تک بنی ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : صحافت یا پُلِ صراط ؟

” لاتعداد چاہنے والے احباب، قارئین اور یاران مجلس اس بندہ ناچیز کی پذیرائی

فرماتے ہیں، ہم اسے اپنی خوش بختی سمجھتے ہیں کہ اگر سو بندوں میں سے دس

بیس کے دلوں میں ہماری بات اتر اور گھر کر جاتی ہے، بعض قارئین کرام تو ہماری

تحریروں کا مطالعہ کرنے کے بعد بذریعہ فون اللہ کے حضور گریہ وزاری کرتے ہوئے

ہمیں اپنی فغاں نیم شبی کی دعاؤں سے نوازتے ہیں اور سچ پوچھئے تو

قارئین اور ہمارے درمیان وسیلہ اللہ کریم کی ذات اقدس کے بعد روزنامہ ایکسپریس اور

ہے یا جتن اردو نیوز کا پلیٹ فارم جس کے توسط سے ہم اپنی آواز اہل عقل و دانش تک

پہنچاتے ہیں، اور خدا گواہ ہے کہ اپنی ذات کیلئے کبھی اخبار یا جتن نیوز اردو کا نام

استعمال تک نہیں کیا، البتہ دکھی انسانیت، پسے ہوئے طبقات معاشرہ اور مظلوموں کی

آواز بن کر ضرور گرجے ہیں، اور علی الاعلان کہا ہے کہ

دنیا کے رویے کو ابھی تول رہے ہیں، ہم مصلحت وقت سے کم بول رہے ہیں

اس دور کے سقراط ہیں ہم، زہر پلا دو اظہار صداقت کے علم کھول رہے ہیں

قارئین کرام! قلم اور دولت دونوں الگ الگ چیزیں ہیں، جن کے ہاتھ میں قلم ہو گا ان کے پاس دولت نہیں ہو گی

اور جس کے پاس دولت ہو گی وہ علم و قلم سے بے بہرہ ہو گا، سب سے بڑی مثال پوری دنیا کے سامنے ہادی

برحق محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے، جو قلم و علم کی دولت سے مالا مال تھے، دنیاوی دولت سے

دور، خیر وہ تو محبوب خدا، رحمت دو عالم، سرور کائنات تھے۔

یہ بھی پڑھیں : مجھ سے کچھ کہا آپ نے؟

عام دنیا کے عام انسانوں میں جو خاص بنے، مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر،

شاعر اسلام حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ جو علم و قلم کی دولت رکھتے تھے مگر

جب صحافت عبادت اور ایک مشن سے ہٹ کر تجارت بن گئی، علم و قلم کے سارے اصول

قواعد و ضوابط اور زاویے تک بدل گئے، اب ایسے بھی لکھاری ہیں، قلمکار ہیں، شاعر ہیں

جو اپنی تحریریں اور غزلیں نظمیں تک ہم جیسے فقیروں سے لکھواتے ہیں اور پھر اپنے نام

سے خریدے ہوئے علم و قلم پر اتراتے ہیں، دور حاضر انہی اوصاف بد سے عبارت ہے،

چھوڑئیے ان باتوں کو سچی و کھری باتیں کون سنتا ہے،

یہ اب ساری کی ساری کتابی باتیں ہو کر رہ گئی ہیں، قول و فعل میں نمایاں تضاد نظر آ رہا ہے، تقریر لچھے دار، مگرعمل صفر۔

۔۔۔۔۔ ( ۔۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔۔ ) ۔۔۔۔۔

قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں،
مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ
جتن نیوز اردو انتظامیہ

آخر کب تک لکھیں گے ، آخر کب تک لکھیں گے ، آخر کب تک لکھیں گے ، آخر کب تک لکھیں گے

مزید تجزیئے ، فیچرز ، کالمز ، بلاگز،رپورٹس اور تبصرے ( == پڑھیں == )

Imran Rasheed

عمران رشید خان صوبہ خیبر پختونخوا کے سینئر صحافی اور سٹوری رائٹر/تجزیہ کار ہیں۔ کرائمز ، تحقیقاتی رپورٹنگ ، افغان امور اور سماجی مسائل پر کافی عبور رکھتے ہیں ، اس وقت جے ٹی این پی کے اردو کیساتھ بحیثیت بیورو چیف خیبر پختونخوا فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ ادارہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d bloggers like this: