آخرکب تک لکھیں گے…؟ (حصہ آخر)
آخرکب تک لکھیں گے…؟ : گذشتہ سے پیوستہ
آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف کہ ” آخرکب تک لکھیں گے ” مبینہ طور پر کچھ تحریریں احباب ذی وقار کی طرف سے بھی موصول ہوئی ہیں۔
چلتے چلتے آپ سے شیئر کئے دیتے ہیں، پچہتر روپے والے نئے کرنسی نوٹ پر ” رزق حلال عین عبادت ہے ” والی عبارت غائب کر دی گئی ہے۔
سٹیٹ بینک کو پتہ چل گیا ہے کہ اب پاکستان میں حلال کمانا بہت مشکل ہے۔
پڑھیں : آخر کب تک لکھیں گے ۔۔۔؟(حصہ اول)
بلاوجہ لوگوں کو کیوں گنہگار کریں اور یہ بھی احباب نے بتایا ہے کہ پچھلے ہفتہ لاہور کے ایک کالج میں کتاب میلہ منعقد ہوا۔
کالج انتظامیہ کی رپورٹ کے مطابق اس میلے میں 1200 شوارمے، 800 بریانی کی پلیٹیں، 900 برگرز اور 1800 کولڈ ڈرنکس کیساتھ صرف اور صرف 35 کتابیں فروخت ہوئیں۔ یہ حال ہے ہماری ذہانت و فطانت کا۔
احباب کی یہیں پر بس نہیں ہوئی، لکھتے ہیں آئی ایم ایف نے بھارتی ماہر معاشیات میڈم گیتا گوپی ناتھ کو پاکستان کے اقتصادی امور کی نگرانی سونپی ہے۔
سٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ غالباً اب انہی کو رپورٹ کریں گے،
ہر بڑے پراجیکٹ کی فنڈنگ کی سکروٹنی بھی میڈم گیتا ہی کریں گی،
پاکستان کے ہر اکاؤنٹ ہولڈر کا ڈیٹا ان کے پاس موجود ہو گا، احباب ہم سے پوچھتے ہیں کہ اب بنے گا کیا،
ہم بھلا کیا ہی بتا سکتے ہیں جنہوں نے جواب دینا ہے، انہی سے پوچھیں۔
مزید پڑھیں : استغفر اللہ، استغفر اللہ اور بس استغفر اللہ
قیام پاکستان سے لے کر اب تک بڑے بڑے لکھاری، دانشور، ادیب، کالم نگار جابر حکمرانوں کے سامنے
کلمہ حق بلند کرتے چلے آ رہے ہیں، کچھ اس دار فانی سے رخصت ہو گئے، کچھ رخصت کر دئیے گئے۔
کچھ ابھی باقی ہیں جو جبر سہ کر زندگی کے باقی دن کاٹ رہے ہیں، سدھار آیا نہ آئے گا۔
ہم بھی کسی دن پیوند زمیں ہو جائیں گے لیکن یاد رکھئے۔
معا شرہ میں سدھار اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک ہم خود کو عملاً
دین مبین اسلام کے اصل اور حقیقی سانچے میں نہیں ڈھال لیں گے۔
ہمارے قول و فعل میں مکمل تضاد ہے، جن جن چیزوں اور اعمال بد سے
ہمیں اللہ اور اس کے رسول ۖ اور کتاب مبین قرآن مجید فرقان حمید نے سختی سے
روکا ہے، انہیں ترک نہیں کریں گے ممکن ہی نہیں ہم فلاح پا جائیں۔
مزید پڑھیں : شطرنج اور تماشائی !
ہم نے انتہائی غلطی اور کم فہمی کی بنیاد پر فقط دنیاوی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھ رکھا ہے،
حالانکہ یہ دنیا مکھی کے پر جتنی بھی حیثیت نہیں رکھتی،
اصل تو آخرت ہے اگر سنور جائے تو سمجھو سب کچھ پا لیا،
ہم نے سیاست، معاشرت، سماجیات، مذہب، دین، اخلاق، کردار، تہذیب و تمدن، روایات
غرضیکہ ہر مضمون پر سیر حاصل کالم لکھے ہیں، اتنا کچھ لکھا ہے کہ اب یہ کہنے
پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ” آخر کب تک لکھیں گے "۔
بہرحال ہمت پھر بھی نہیں ہاری ‘ جب تک سانسیں باقی ہیں’
اصلاح اور تطہیر کیلئے قلم کا جہاد جاری رکھیں گے،
مگر اتنا کچھ بتائے دیتے ہیں کہ اب انقلاب نیچے سے آنے کے امکانات معدوم ہو کر رہ گئے ہیں،
کیونکہ ہماری سرمایہ دار اور جاگیر دار اشرافیہ کسی غریب کو کسی صورت آگے نہیں آنے دے گی۔
جو نظام ہمارے ہاں چل رہا ہے وہاں تو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کیلئے دھن دولت کی ضرورت پڑتی ہے۔
اخلاق، کردار، اوصاف حمیدہ، ملی جذبوں، حب الوطنی، درد مندی اور دیانتداری کی کوئی ضرورت نہیں۔
غریب بے چارے کے پاس تو یہ سارے اوصاف ہوتے ہیں دولت کے انبار نہیں ہوتے،
یہی وجہ ہے کہ ہمارا جو طبقہ جو جماعت اور جو سیاستدان اقتدار میں آتے ہیں وہ اگلے
انتخابات میں جائز و ناجائز ووٹ لینے کیلئے بوریوں کے منہ کھول دیتے ہیں۔ اسلئے وہ
انتخابات سے قبل اپنے پہلے دور اقتدار میں کرپشن کی انتہا کر دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیئے : جو بووو گے وہ لازمی کاٹو گے
حکمران اگر اچھا ہوتا ہے تو اس کے نیچے اس کی ٹیم اور حواری کرپٹ ہوتے ہیں۔
اگر حکمران محنتی، متحرک اور فعال ہوتا ہے تو اس کے نیچے چور اور نکمے لوگ
بیٹھے ہوتے ہیں، سابقہ دور میں حکمران کچھ تھا اس کے حواری کچھ تھے، بات وہی تھی
کہ ” ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ ” ہم محب الوطن لکھاری لکھ لکھ کر تھک جائیں گے
اور بادل ناخواستہ یہ کہہ کر کسی نہ کسی دن چپ ہی ہو جائیں گے کہ ” آخر کب تک لکھیں گے "۔
حبیب جالب کے ان اشعار پر کالم تمام کئے دیتے ہیں کہ
عذاب عہد رفتہ سہہ چکے ہیں اور اب ہے خوف مستقبل مقابل
زمیں کو آسماں کہنا نہ آیا یہی مشکل رہی مد مقابل
قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں،
مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ
جتن نیوز اردو انتظامیہ
آخرکب تک لکھیں گے…؟ ، آخرکب تک لکھیں گے…؟
مزید تجزیئے ، فیچرز ، کالمز ، بلاگز،رپورٹس اور تبصرے ( == پڑھیں == )