آغاز تو بسم اللہ ہے انجام خدا جانے
آغاز تو بسم اللہ ہے
پی ٹی آئی کے جاری لانگ مارچ سے خون خرابے کی اُمید و توقع قطعا نہیں۔
مارچ کا آغاز پُرامن و پُر سکون ہے حتیٰ کہ وہ جذبہ، وہ ولولہ اور تیزی دکھائی نہیں دے رہی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔
دن میں قافلہ سڑکوں پر گھومتا اور رات کو گھروں میں سوتا ہے۔
تعداد کے لحاظ سے بھی مقابلے والی پوزیشن نہیں ہے مگر حکومت نے وفاقی دارالحکومت میں حفاظتی انتظامات کر لیے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے سابقہ فیصلے کی روشنی میں واضح کر دیا ہے
کسی کو سرکاری املاک کو نقصان پہچانے کی اجازت نہیں دی جائیگی،
پڑھیں : کُتی سینکتا رہا اور دُولتًی دُولتی
تاہم لانگ مارچ کو نہیں روکیں گے۔ سیاستدان اپنے معاملات خود طے کریں۔
وفاقی حکومت نے عمران خان کے خونیں انقلاب کے اشارے
اور علی امین کی بندوقوں سے متعلق آڈیو لیک کے تناظر میں
عدلیہ سے دوبارہ رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن عدلیہ سے امید نہیں کہ زبانی کلامی باتوں پر کوئی کارروائی کرے،
البتہ عمران خان کے بارے میں یہ موقف درست ہے کہ وہ یقین دہانی کروا کر مکر جاتے اور وعدہ خلافی کو حکمت عملی گردانتے ہیں۔
ایسی بےشمار مثالیں موجود ہیں۔ گزشتہ روز انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو پھر متنبہ کیا
ہے کہ پرامن تبدیلی نہیں لائی گئی تو خونیں انقلاب آ سکتا ہے۔
مزید پڑھیں : مذاکرات پر آمادگی اور توقعات
ان کے بیان،علی امین کی آڈیو لیک اور فیصل واوڈا کی گفتگو کو پیش نظر رکھ کر سوچا جائے تو ایسا ممکن ہے
کہ ابتدا پُرامن اور اختتام پرتشدد ہو۔ لیکن تاحال یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پی ٹی آئی تشدد کی جانب جائے گی۔
بیانات سے بھی واضح دھمکی محسوس نہیں ہو رہی۔
پس اتنا سمجھ میں آ رہا ہے کہ اگر پرامن مارچ کو روکا گیا تو جوابی چارہ جوئی کی جائے گی۔
اگر عام انتخابات نہیں کروائے جاتے تو خونیں انقلاب بھی آ سکتا ہے،
گویا مارچ پرامن طور پر اسلام آباد پہنچے گا اور عدالت عظمی کے فیصلے کے مطابق جلسہ منعقد کیا جائے گا۔
ایسی صورتحال میں وفاقی حکومت سے بھی توقع ہے کہ وہ رکاوٹ بن کر حالات کی خرابی کا سبب نہیں بنے گی۔
فریقین میں سے کسی کی بھی معمولی غلطی حالات کو سنگینی اور تشدد میں بدل سکتی ہے۔
دونوں کو محتاط رہنے کی اشد ضرورت ہے۔ کوئی تیسرا فریق بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
دہشت گرد بھی اور دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے گماشتے بھی۔
خون خرابہ کسی کے بھی حق میں بہتر نہیں۔
اگر عمران خان سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد پہنچ کر پرامن مارچ کو
پرتشدد مارچ میں بدل کر انقلاب برپا کر دیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔
یہ بھی پڑھیں : لانگ مارچ طویل نہ ہی مُتشدد ہو گا
صورتحال متشدد اور طویل ہوئی تو یاد رکھنا چاہیے کہ سیاست و جمہوریت اور آئین و قانون آمریت کا ترنوالہ بن جائیں گے۔
تب اقتدار قومی سیاسی جمہوری قیادت کے ہاتھوں سے نکل کر طالع آزماوں کی نذر ہو جائیگا۔
جو ماضی کی مثل طویل اور صبر آزما ہو گا،
اور اگر فوج نے حکومت نہ سنبھالی تو خون کے دریا بہنے کے بعد بھی اقتدار عمران خان کو نہیں ملے گا،
بلکہ کسی اور کے ہاتھ آئے گا، جبکہ کوئی بھی قوت ملک کو نہیں سنبھال پائے گی۔
رہی سہی معیشت کا بھی جنازہ نکل چکا ہو گا۔ بھوک و ننگ کا دور دورہ ہو گا۔
لوٹ مار اور جرائم عام ہو جائیں گے۔ اگر پی ڈی ایم کی حکومت ختم ہو گی تو پی ٹی آئی بھی برسر اقتدار نہیں آئے گی۔
قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں،
مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ
جتن نیوز اردو انتظامیہ
آغاز تو بسم اللہ ہے ، آغاز تو بسم اللہ ہے ، آغاز تو بسم اللہ ہے ، آغاز تو بسم اللہ ہے ، آغاز تو بسم اللہ ہے
مزید تجزیئے ، فیچرز ، کالمز ، بلاگز،رپورٹس اور تبصرے ( == پڑھیں == )