آئین، انتخابات اور عدلیہ میں بغاوت

آئین، انتخابات اور عدلیہ میں بغاوت

وطن عزیز آجکل جس صورتحال سے دوچار ہے وہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے سانحات سے یکسر مختلف مگر سنگینی میں ہر دو واقعات سے بڑھ کر ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو جب پھانسی دی گئی تب ملک میں مارشل لا نافذ تھا اور تمام تر اختیارات جنرل ضیاء الحق کی ذات میں مرتکز تھے جبکہ محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے وقت اعلانیہ مارشل لا نہ تھا اور محترمہ نے جلاوطنی ختم کرنے سے کچھ ہی پہلے اپنی زندگی کو چار افراد سے خطرے کی نشاندہی کی تھی اور ان کے قتل کے بعد آصف زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ بلند کر کے ایک بڑے فساد کی راہ روک دی تھی جبکہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی نے بنفس نفیس سندھ جا کر اس قتل سے لاتعلقی ظاہر کی تھی۔

پڑھیں : نواز شریف کا اولین دیرینہ مطالبہ، عمران خان سہولت کار ۔ ۔ ۔ ؟

مگر آج صورتحال مختلف اس لئے ہے کہ اولاََ ایک قوت نیوٹرل اور اتحادی حکومت مصلحتوں کا شکار ہے

جبکہ عدلیہ میں تقسیم نے بغاوت کی صورت اختیار کر لی ہے جس کے باعث کسی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔

اس امر میں کوئی دو آراء نہیں کہ آئین کا مطلوب و مقصود عوام کے حقوق کا تحفظ ہے،

ماضی قریب میں پنجاب کے انتخابات کے حوالے سے عدالت عظمی کے

فیصلے کا معروضی اور زمینی حقائق کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو یہ

امر کھل کر سامنے آتا ہے کہ دو صوبوں کی اسمبلیاں کسی بھی طرح عوام

کے مفاد کو مدنظر رکھ کر تحلیل نہیں کی گئیں بلکہ انکی تحلیل سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر تھی،

جبکہ انتخابات کے التواء کا اعلان الیکشن کمیشن نے دفاع، خزانہ اور داخلہ کی وزارتوں کیساتھ مشاورت سے کیا ہے۔

مزید برآں لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے انتخابی ڈیوٹی کیلئے جوڈیشل افسر دینے سے معذرت بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔

مگر پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کا اقدام سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے کر تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے۔

آج دن گیارہ بجے عدالت دوبارہ لگے گی۔

انتخابات، نیا سیم پیج اور رکاوٹ

اس سے پہلے بینچ کے معزز رکن جسٹس جمال خان مندو خیل نے

پی ٹی آئی کی جمع کرائی گئی درخواست سے متعلق ریمارکس میں

کہا کہ ازخود نوٹس کا جو فیصلہ پٹیشن کیساتھ لف کیا گیا ہے اس پر

تمام ججز کے دستخط موجود نہیں جبکہ اسی دوران ازخود نوٹس میں

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندو خیل کے اختلافی

فیصلے کی تفصیل بھی سامنے آئی ہے جس میں ایک طرح سے چیف

جسٹس کے ازخود نوٹس کے اختیار پر سوال اٹھائے گئے ہیں جب کہ

تفصیلی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ازخود نوٹس کیس کو 3 کے

مقابلے میں 4 ججز نے مسترد کر دیا اور چیف جسٹس ایک بینچ بنانے

کے بعد اس میں سے ججز کو نکال باہر کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔

معلوم نہیں سچ کیا ہے؟

چونکہ پہلے 9 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا جس میں جسٹس اطہر من

اللہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل سمیت 3 ججز نے ازخود نوٹس کو

مسترد کر دیا تھا مگر جیسا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے چیف جسٹس کے

جاری کردہ پہلی سماعت کے حکم کو ٹیمپرڈ قرار دیا تھا اور بعد ازاں

جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پی ڈی ایم اور

بار کونسل کے دباو کے تحت سماعت سے الگ ہو گئے تھے اور جسٹس

اطہر من اللہ نے ایک اور ساتھی جج کے ہمراہ خود کو چیف جسٹس کی

صوابدید پر چھوڑ دیا اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جب دوبارہ

5 رکنی بینچ بنایا تو وہ دو ججز اس کا حصہ نہیں تھے جبکہ اسی بینچ میں

جسٹس جمال خان مندوخیل نے جسٹس منصورعلی شاہ کے ہمراہ ایک بار

پھر اس نوٹس کو مسترد کر دیا اور ان 4 ججز کی جانب سے مذکورہ اختلافی

فیصلے آرڈر آف دی کورٹ کا حصہ ہیں اسلئے یہ ازخود نوٹس 3 کے مقابلے

4 ججز مسترد کر چکے ہیں۔

عدلیہ ہی ذمہ دار تو مٹھائیاں کس نے بانٹیں ۔ ۔ ۔ ؟

تفصیلی فیصلے میں پانامہ کیس کا حوالہ بھی دیا گیا اور کہا گیا کہ پانامہ

کیس میں 2 کے مقابلے میں 3 ججز کے فیصلے کو تسلیم کیا گیا مگر بعد

ازاں تین رکنی بینچ نے سماعت کی اور فیصلہ کے وقت 2 ججز جو اس تین

رکنی بینچ کا حصہ نہ تھے وہ بھی دیگر ججز کیساتھ بیٹھ گئے اور پھر فیصلہ

5 کے مقابلے میں صفر سے دیا گیا، فیصلے میں مذید کہا گیا کہ اب وقت آ گیا

ہے کہ 184 تین کے تحت چیف جسٹس کے سوموٹو اختیار کی وضاحت کے

لئے 15 رکنی فل کورٹ تشکیل دی جائے تاکہ اس اہم مسئلے پر باقاعدہ کام

ہو سکے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ بینچ سازی اور فیصلہ سازی سے

متعلق ایک شخص کو اس قدر اختیار دینے سے عدلیہ کا وقار داو پر لگا گیا

ہے اور عدالت عظمی کی خود مختاری پر سوالات اٹھ رہے ہیں، اس دوران

اسلام آباد میں عمران خان نے عبوری ضمانتیں کر لی ہیں جس کے دوران

فاضل جج نے یہ کہا کہ آپ نے اگلی پیشی پر ضرور حاضری یقینی بنانی

ہے اور کسی بھی قسم کے مذید استثنیٰ سے اجتناب کیس ہے جس پر عمران خان نے کہا کہ یس سر۔

ملک کو تاریکی سے نکالنا مشکل ضرور! ناممکن نہیں

اب آج گیارہ بجے دن کو سب کی نظریں سپریم کورٹ پر جمی ہوئی ہیں۔

دوسری طرف وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے نجی ٹی وی سے بات چیت

کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان نے سیاسی اختلاف کو دشمنی میں

بدل دیا ہے اب یا ہم رہیں ہے یا عمران خان، اس سوال پر کہ کیا حالات

اب پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ گئے ہیں، وزیر داخلہ نے کہا پوائنٹ

آف نو ریٹرن اب پیچھے رہ گیا ہے، اب ہم سے جو ہو سکا وہ کریں گے،

اب آج کی سماعت کے بعد ہی کچھ اندازہ ہو سکے گا کہ حالات کس سمت

کو جاتے ہیں، وکلا نے اس امر پر بھی حیرت کا اظہار کیا ہے کہ عدالت

عظمی کی جانب سے ایک بار فیصلہ سنائے جانے کے بعد دوبارہ اسی کیس کو کیونکر سنا جا سکتا ہے۔

قارئین ===> ہماری کاوش اچھی لگے تو شیئر، اپ ڈیٹ رہنے کیلئے (== فالو == ) کریں،
مزید بہتری کیلئے اپنی قیمتی آرا سے بھی ضرور نوازیں،شکریہ
جتن نیوز اردو انتظامیہ

آئین، انتخابات اور عدلیہ میں بغاوت , آئین، انتخابات اور عدلیہ میں بغاوت , آئین، انتخابات اور عدلیہ میں بغاوت , آئین، انتخابات اور عدلیہ میں بغاوت

مزید تجزیئے ، فیچرز ، کالمز ، بلاگز،رپورٹس اور تبصرے ( == پڑھیں == )

admin

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہونے والے اہم حالات و واقعات اور دیگر معلومات سے آگاہی کا پلیٹ فارم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d bloggers like this: